امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کے صدر ولادیمر زلنسکی پر خوب برسے ہیں ۔انہوںنے زلنسکی کو بیک وقت احمق اور مزاحیہ اداکار قرار دیا ۔ٹرمپ نے زلنسکی کو مزاحیہ اداکار قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے کامیڈین تھے جنہیں اپنے شعبے میں بھی محدود کامیابی حاصل ہوئی تھی انہوں نے امریکہ کو ورغلا ء کر ایک ایسی جنگ میں ساڑھے تین سو ارب امریکی ڈالر جھونکنے پر آمادہ کیا جو یوکرین جیت بھی نہیں سکتا تھا ۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یوکرین جنگ شروع ہی نہیں ہونی چاہئے تھی ۔امریکہ نے اس جنگ میں یورپ سے دس ارب زیادہ خرچ کئے ۔اب امریکہ کا یہ پیسہ واپس بھی نہیں آئے گا۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ جنگ ہم سے زیادہ یورپ کے لئے اہم تھی ۔اوپر سے زلنسکی کہتے ہیں کہ امریکہ جو رقم یوکرین کو دی اس میں سے آدھی غائب ہوگئی ۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ زلنسکی کو جو واحد کام آتا تھا وہ تھا بائیڈن کی بانسری کی طرح بجنا ۔اس کے جواب میں زلنسکی نے بھی ٹرمپ پر تنقید کی اور کہا ٹرمپ روس کی بنائی گئی ڈس انفارمیشن کی دنیا میں جی رہے ہیں ۔میں اپنا ملک امریکہ کو بیچنے کو تیار نہیں ۔اس کے ساتھ ہی زلنسکی نے امریکہ کے ساتھ قیمتی معدنیات کے معاہدے کو مسترد کردیا ۔یوکرین کے صدر ولادیمر زلنسکی چند ہی برس پہلے مغرب کے لئے ایک ایسے مسیحا اور مقدس جنگجو کے طور پر سامنے آئے تھے جس نے سفید فام بالادستی کی آخری لڑائی لڑنا اور اس میں فتح حاصل کرنا تھی ۔یوکرین کی جنگ کے آغاز میں ہی مغرب نے زلنسکی کی شبیہ ایک ایسے جنگجو کی بنائی تھی جو مغرب کے جنگی رضاکاروں کے لئے ایک رول ماڈل کی شکل اختیار کرجاتا ۔برطانیہ کے وزیر خارجہ نے دنیا بھر کے سفید فاموں سے اس جنگ میں شرکت کی اپیل کی تھی ۔اس طرح جنگ شروع ہوتے ہی زلنسکی مغرب کے لئے ایک محافظ اور مسیحا کا روپ دھا ر گیا تھا ۔ایک ایسا مسیحا جو روس کی یورپ کی طرف پیش قدمی کی راہ میں رکاوٹ بننے کا جرات مندانہ قدم اُٹھانے پر آمادہ ہوا۔زلنسکی حقیقت میں سی آئی اے اور یورپ کا مشترکہ پروجیکٹ تھا جسے یوکرین کو یورپی یونین میں شمولیت کے لئے استعمال کیا جانا تھا ۔اس مقصد کے لئے سی آئی اے نے2014میں یوکرین میں رجیم چینج کی ابتدا کی تھی ۔یوکرینی صدر حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اچانک اپنا منصب چھوڑ کر روس چلے گئے تھے ۔اس وقت سے ہی یوکرین ایک کشیدگی اور تنائو کا شکارہوگیا تھا ۔گزشتہ انتخابات میں زلنسکی کی کامیابی کے بعد یوکرین روس اور امریکہ کی کشمکش کا نشانہ بن کر رہ گیا ۔یہاں تک کہ روس نے یوکرین میں اپنی فوجیں داخل کیں اور امریکہ نے اس موقع کو روس سے بدلہ چکانے کا اچھا موقع جان کر مغرب کو زلنسکی کی پشت پر لاکھڑا کیا ۔اس جنگ میں غیر مغربی ملکوں کو حیلوں بہانوں سے گھسیٹنے کی کوشش کی گئی ۔بھارت اور پاکستان جیسے ملکوں کو بھی روس کی مذمت اور اس جنگ میں کسی نہ کسی انداز سے شرکت کے لئے دبائو کا سامنا کرنا پڑا ۔بھارت نے ٹکا سا جواب دیا کہ مغرب کا یہ رویہ قابل قبول نہیں کہ اس کے مسائل دنیا بھر کے مسائل ہیں اور دنیا بھر کے مسائل صرف انہی کے مسائل ہیں ۔بھارت نے یوکرین کو مغرب کا مسئلہ قرار دے کر کامیابی کے ساتھ اس جنگ سے دامن بچالیا ۔پاکستان میں عمران خان نے بھی کشمیر کا نام لے کر یہی موقف اپنایا کہ جب ہمارے مسائل کی بات ہوتی ہے تو یورپ اس میں ہمارا ساتھ نہیں دیتا اب ہم یوکرین کے خالص یورپی مسئلے میں ان کا کیونکر ساتھ دیں ۔عمران خان کے اس موقف سے ملکی اسٹیبشلمنٹ کی ٹانگیں کانپ گئیں اور عمران خان کے انکار کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے آگے بڑھ کر روس کی مذمت کا یورپی مطالبہ منظور کیا ۔اس سے پاکستان بھی ایک نہ ختم ہونے والے سیاسی آشوب کا شکار ہوگیا ۔امریکہ کا وہی لاڈلا زلنسکی ترجیحات اور حالات بدلنے کے نتیجے میں امریکہ کی چھتری سے نہ صرف اچانک محروم ہوگیا بلکہ اسے طنزیہ جملوں کا نشانہ بھی بننا پڑرہا ہے۔یہ زلنسکی کا تنہا دکھ نہیں بلکہ امریکہ اپنے اکثر عالمی مہروں کے ساتھ یہی سلوک کرتا ہے ۔ترجیحات بدلتے ہی امریکہ اپنے اتحادیوں کو ٹشو پیپر کی طرح پھینکنے میں لمحوں کی دیر نہیں کرتا ۔جنوبی ویت نام کے حکمرانوں کی پیٹھ امریکہ دہائیوں تک تھپتھپاتا رہا ۔جس کے نتیجے میں شمالی اور جنوبی ویت نام اور کمبوڈیا دہائیوں تک جنگ کے میدان بنے رہے ۔یہاں تک کہ امریکہ کو اپنے فوجی اس جنگ میں اُتارنا پڑے مگر جب شمالی ویت نامیوں نے مسلسل گوریلا جنگ لڑ کر امریکہ کے لئے خطے میں رہنا ناممکن بنادیا تو امریکہ ٹران تھن کھم اور ویت نامیوں اتحادیوں کو کھلے آسمان تلے چھوڑ کر خطے سے بھاگ نکلا اور شمالی ویت نام اس جنگ میں فاتح بن کر اُبھرا۔ابھی کل کی ہی بات ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنے ہمنوا حکمرانوں حامد کرزئی اور اشرف غنی کی پشت پر چٹان بن کر کھڑا تھا اور یہ حکمران بھی امریکی مدد کے باعث آسمان کی بلندیوں پر محوپرواز تھے ۔انہیں یہ گمان تھا کہ امریکہ آخری فتح تک مہربان چھائوں اور سائبان بن کر ان کے سروں پر سایہ فگن رہے گا ۔امریکہ اپنی ترجیحات کے تحت طالبان سے مذاکرات کرتا رہا اور یہاں تک کہ ایک رات امریکی فوجی بگرام ائر بیس خالی کرکے چلے گئے اور امریکی بیساکھی پر کھڑے اشرف غنی اس غیر متوقع انخلاء کے باعث کھلے آسمان تلے آگئے ۔انہیں یہ قلق رہا کہ امریکیوں نے بگرام سے بھاگتے ہوئے بھی انہیں یہ بتانا گوارا نہ کیا کہ وہ افغانستان سے اپنا مشن ختم کرکے جا رہے ہیں ۔اس کے کچھ ہی عرصہ بعد اشرف غنی بھی اپنے سامان کے صندوق بھر کر نامعلوم منزل کی طرف چل دئیے ۔جنوبی ویت نام سے افغانستان اور اب یوکرین تک امریکہ اپنے بچہ جمہوروں کے ساتھ یہی کرتا آیا ہے ۔اس لئے زلنسکی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے امریکہ کی تاریخ اور روایات کے عین مطابق ہے ۔امریکہ جب اپنے اتحادیوں کو عوامی بغاوت کے سیلاب میں بہتا ہوا دیکھتا ہے تو وہ الوداعی سلام کہنا بھی گوار ا نہیں کرتا ۔جنرل ضیاء الحق کی طرح بہت کم خوش قسمت ایسے ہوتے ہیں جن کی موت پر امریکی دوسطروں پر مشتمل بیان جا ری کرتے ہیں ۔ وگرنہ رضاشاہ پہلوی جیسے بہت سے اتحادی تو اس کے مستحق بھی نہیں سمجھے گئے۔پاکستان کا موجودہ نظام یوکرین کی جنگ کے تنازعے کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ہے ۔امریکہ نے اس سسٹم کو ہر حال میں تحفظ دینے کا راستہ اختیار کیا ۔انتخابات میں دھاندلی سے انسانی حقوق تک امریکہ اپنے تمام اصولوں کو فراموش کر بیٹھا ۔اب منظر بدل گیا ہے تو زلنسکی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بعد بہت سے امریکی دوستوں کے لئے” سب اچھا” نہیں رہا کیونکہ امریکہ پر حد سے زیادہ انحصار اور مکمل تکیہ خود فریبی ہی ثابت ہوتا ہے۔
