صوبے میں شفافیت اور میرٹ پر تقرری کی دعویدار حکومت کے دور میں خیبر پختون خوا میںتھوک کے حساب سے لاء آفیسرزموجود ہونے کے باوجودسرکار کو اینٹی نارکوٹکس قانون کے سپریم کورٹ اور ایکسائز ڈیوٹی کے ہائی کورٹ میں دفاع کے لیے چار کروڑ85لاکھ روپے کے اضافی فیس کی ادائیگی سے نجی وکلا ء کی خدمات کا حصول نہ صرف لا ء آفیسرز کو خلاف میرٹ اور خلاف اہلیت بھرتی کرنے کی نشاندہی نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر اس طرح کے افراد کی تقرری کا الزام بھی درست ثابت ہوتا ہے واضح رہے کہ خیبر پختون خوا حکومت کے پاس ایڈوکیٹ جنرل آفس میں60 سے زائد لا ء آفیسرز کام کر رہے ہیں جن کی ذمہ داری سرکاری محکموں کے مقدمات کا عدالتوں میں دفاع ہے ان لاء آفیسرز کو ماہانہ پانچ سے15 لاکھ روپے تک تنخواہ اور مراعات کی مد میں ادائیگی ہوتی ہے تاہم اس کے باوجود وہ اس درجہ قابلیت کے حامل نہیں یا پھر وہ سرکاری مقدمات میں دفاع کے لیے مناسب تیاری اور محنت سے گریزاں ہوتے ہیں بہرحال وجہ جو بھی ہو صوبائی حکومت کا پرائیویٹ وکلاء کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہونا صوبے میں سرکاری وکلاء کی کارکردگی کے حوالے سے عدم اعتماد کا باعث امر ہے ستم بالا ستم یہ کہ ایڈوکیٹ جنرل آفس کو بھی لا ء آفیسرز کی بری کارکردگی پر تشویش ہے اور چار لا ء آ فیسرز کو خراب کارکردگی پر نوٹس کا بھی اجرا ہو چکا ہے اس ساری صورتحال سے بغیر اہلیت بھرتی ہی کا نہیں بلکہ محولہ آفس کی اپنی بے بسی اور مجبوری بھی واضح ہے یہ ساری صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ صوبے میں بھلے حکمران اور برسر اقتدار سیاسی جماعت کے وکلا ء ونگ ہی کے ممبران کو لاء آفیسر مقرر کیا جائے لیکن کم از کم اتنا تو خیال رکھ کھا جانا چاہیے کہ وہ سرکاری مقدمات میں کم ازکم حکومت کے دفاع کے قابل تو ہوں اور ان کی وجہ سے سرکار مقدمات ہارنے کے عمل سے دو چار نہ ہو توقع کی جانی چاہیے کہ اس مسئلے کا ازسر نو جائزہ لیا جائے گا اور اہلیت کی جانچ پڑتال کے بعد اور ساتھ ہی ساتھ مقدمات میں خراب کارکردگی کے حامل وکلاء کی جگہ نئے قابل تجربہ کار اور محنتی وکلاء کا انتخاب کیا جائے گا تاکہ حکومتی و عوامی مفاد متاثر نہ ہو اور سرکاری وسائل کے ضیاع سے بھی بچا جا سکے۔
