ہم نوجوانوں پر سرمایہ کاری کیوں نہیں کررہے؟

دنیا بھر میں سب سے زیادہ توجہ حکومتیں اپنے نوجوانوں پر دیتی ہیں ۔ نوجوانوں سے مراد اٹھارہ برس سے پچیس برس کے افراد ہیںجو ہمارے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں ۔یہ نوجوان زندگی کے اس حصے میں ذہنی اور جسمانی طور پر بالغ ہورہے ہوتے ہیں اور اسی عمر میں ان کو اپنی منزل کی سمت کا تعین کرنا ہوتا ہے ۔ترقی یافتہ اور زندہ اقوام نے اپنے نوجوانوں پر بہت زیادہ توجہ دی ہے اور ان کی تربیت پر کثیر سرمایہ بھی خرچ کررہے ہیں ۔ چین اپنے نوجوانوں پر اپنے جی ڈی پی کا ستائیس فیصد حصہ خرچ کرتا ہے
۔ جنوبی کوریا چین سے بھی زیادہ خرچہ کرتا ہے ۔ حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش نے اپنے نوجوانوں کی فلاح و بہبود اور ترقی پر توجہ دی ہے اور ان پر سرمایہ کاری شروع کی ہے جس کے بہت ہی زیادہ مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔پاکستان میں نوجوانوں پر سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے اور ان کے لیے روزگار کے مواقع بھی کم ہوتے جارہے ہیں ۔پھر ان نوجوانوں کو مثبت راہ دکھانے والا بھی کوئی نہیں جس کا فائدہ اٹھا کر مختلف سیاسی ، گروہی ، لسانی ، مذہبی اور علاقائی گروہ اور پھر ان کے ساتھ ساتھ سمگلرز اور ملک دشمن لوگ بھی ان کو ورغلانے میں پیش پیش ہیں جس کے نتیجے میں ایک بڑی تعداد میں یہ نوجوان پروپیگنڈا اور حکومتی عدم توجہی کے باعث ان لوگوں کے آلہ کار بن رہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ملک میں بدامنی کا پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے ۔ دنیا بھر میں یوتھ کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھا جاتا ہے جس کا ایک مقصد ان کو کام پر لگانا ہوتا ہے اور دوسرا مقصد ان کی صلاحیتوں کو فائدہ مند مقاصد میں صرف کرنا ہوتا ہے ورنہ نوجوان باآسانی غیر فائدہ مند اور ضرر رساں کاموں کی طرف راغب ہوجاتے ہیں ۔ پاکستان میں دنیا کے مقابلے میں منشیات کا استعمال نوجوانوں میںبڑھ رہا ہے ۔ اس کی وجہ بھی ان کو توجہ نہ دینا اور ان کو مصروف نہ رکھنا ہے ۔ ہم پاکستان کے سالانہ بجٹ میں اشرافیہ کے لیے جتنے مراعات اور ان کے ٹیکسیوں میں جتنے چھوٹ دیتے ہیں اگر اس کا دس فیصد حصہ بھی اشرافیہ کودینے کی بجائے نوجوانوں پر استعمال کریں تو یہ ملک واپس ترقی کی ٹریک پر چڑھ سکتا ہے ۔ان نوجوانوں میں سے صرف ایک فیصد ہی کو باہر جانے کا موقع ملتا ہے شہروں میں اس وقت زیادہ تر نوجوان عملی مواقع اور روزگار نہ ہونے کے سبب آن لائن جوا بازی میں مصروف ہیں اور اس جوے میں روزانہ کے حساب سے اربوں روپے ہار رہے ہیں ۔ پھر شہروں کے نوجوان دھوکہ دہی میں بھی پیش پیش ہیں ۔ اخلاقی طور پر آج کل کے نوجوانوں کی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے اس کا نظارہ آپ کسی بھی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر دیکھ سکتے ہیں ۔ پاکستان میں تعلیم نوجوانوں کی تربیت اور اخلاق سازی میں کوئی کردار ادا نہیں کررہا ۔ استاد کا کردار بھی وہ نہیں رہا جو دنیا کے دیگر ممالک میں ہے ۔ تعلیمی اداروں میں سیاسی بھرتیوں اور تعلیم پر سرمایہ کاری نہ ہونے کے سبب یہاں کا تعلیمی نظام بے سود و بے فائدہ ہوکر رہ گیا ہے اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اس تعلیم کو ڈھالا ہی نہیں گیا اور جدید ضرورتوں کے مطابق اس میں تبدیلی کو ضروری ہی نہیں سمجھا گیا جس کی وجہ سے طالب علم سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سولہ سترہ برس ضائع کردیتے ہیں ۔ ان کی تعلیم سے معاشرہ اور ملک کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہورہا ۔ اب پوری دنیا عملی تعلیم پر جارہی ہے اور رسمی تعلیم کو ترک کررہی ہے مگر پاکستان میں انجینئرنگ جیسے فیلڈ میں تعلیم صرف کتابوں اور رٹے تک محدود ہے ۔ نوجوانوں کو کھیلوں میں مصروف رکھنے کا کام بھی تقریباً ختم ہوچکا ہے جتنے کھیلوں کے ادارے فیڈریشنز
ہیں وہ سب سیاسی اور ریٹائرڈ لوگوں کے لیے آمدنی کا ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں اور اربوں خرچ کرکے بھی پاکستان میں نوجوانوں کو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح صحت مند کھیلوں کی سہولتیں حاصل نہیں ہیں ۔ پھر نوجوانوں کو منشیات کی لعنت سے بچانے کے لیے کوئی بھی عملی کام نہیں ہورہا ۔ منشیات پاکستان بھر میں اتنی آسانی سے دستیاب ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا جس تیزی کے ساتھ نوجوان مختلف قسم کے نشے استعمال میں لارہے ہیں ان کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں ہے ۔ پاکستان میں چونکہ ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جس کے پاس کرپشن، سمگلنگ اور دیگر غیر قانونی کاموں سے اتنا پیسہ آگیا ہے کہ وہ اس کی نمود نمائش کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے وہ اپنے بچوں کو بے تحاشا پیسہ دیتے ہیں جسے یہ نوجوان غلط کاموں اور منشیات میں بے دریغ استعمال کرتے ہیں یہ نودولتیے بچے اپنے ساتھ دوسروں کے بچوں کو بھی اس راہ پرلگا لیتے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں خاندان متاثر ہوتے ہیں اور پھر یہ سارے نوجوان معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں ۔ دیہی علاقوں میں خصوصاً سرحد کے قریب کے علاقوں میں نوجوانوں کو کوئی روزگار اور تعلیم کے مواقع دستیاب نہیں ہوتے اور وہاں سمگلنگ عام ہے جس سے روزانہ کی بنیاد پر لوگ بہت زیادہ پیسے کماتے ہیں اس لیے ان علاقوں میں نوجوانوں کی پہلی ترجیح سمگلر بننا یہ کسی سمگلر کا آلہ کار بننا ہوتا ہے ۔ ان کے سامنے کوئی دوسراراستہ ہوتا ہی نہیں ہے ۔سمگلنگ سے جو نوجوان بچ جاتے ہیں انہیں نام نہاد جہادی اور دیگر گروہ بھرتی کرلیتے ہیں یوں ہمارے ان
علاقوں کے نوجوان ہمارے ہی ملک کے خلاف استعمال ہوتے ہیں ۔ اگر ان علاقوں سے سمگلنگ کی لعنت کو ختم کردیا جائے اور ان کے لوگوں کو بھی وہ سہولیات اور مواقع فراہم کردئیے جائیں جو دیگر شہروں میں ہیں تو ان نوجوانوں کو بچا یا جاسکتا ہے اور ان علاقوں میں امن قائم کیا جاسکتا ہے ۔پاکستان کے بیشتر نوجوان اب اس ملک میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ان کی خواہش ہے کہ وہ بیرون ملک چلے جائیں اور وہاں کام کریں یہ رجحان تعلیم اور آن پڑھ دونوں طرح کے نوجوانوں میں بہت زیادہ تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے ۔ سیاسی حکومتیں نوجوانوں کے نام پر پراجیکٹس تو بنالیتی ہیں لیکن ان کو اپنے سیاسی کارندوں میں تقسیم کرکے ان کی افادیت ختم کردیتی ہیں ۔ اس ملک میں حکومت نے لوگوںکو بھکاری بنا دیا ہے لاکھوں افراد کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بھیک دی جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ روزگار کی طرف راغب ہی نہیں ہوتے ۔ پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش نے بھیک دینے سے انکار کرکے لوگوں کو عملی روزگار دینے کا فیصلہ کیا تھا جس کی وجہ سے بنگلہ دیش میں بے روزگاری کی شرح میں ساٹھ فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوگئی ہے اور آنے والے برسوں میں اس میں مزید کمی واقع ہوگی ۔ اس ملک میں نوجوان کسی بھی سہولت کا حقدار نہیں ہے ۔ نہ نوجوانوں کے لیے حکومت اور ریاست کے پاس کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی حکومت ان کی تعلیم اور تربیت پر خرچ کرنے کے لیے تیار ہے ۔ ایسے میں اس ملک کے نوجوانوں سے یہ توقع رکھنا کہ یہ جاپان اور جنوبی کوریا کے نوجوانوں کی طرح ملک کی معیشت میں حصہ ڈالیں گے احمقوں کے جنت میں رہنے کے مترداف ہے ۔ یہ نوجوان اس ملک کا مستقبل ہیں ان پر توجہ دینا لازمی ہے ۔ یہ حکومت ، ریاست ، عدالت اور عام عوام سب کی ذمہ داری ہے
کہ وہ ان نوجوانوں کو مثبت سمت میں آگے بڑھنے کا راستہ فراہم کریں اور اپنے اپنے حصہ کا فرض پورا کریں ۔ ورنہ یہ نوجوان اس ملک کے لیے بوجھ بن جائیں گے اور پھر یہ ملک ان نوجوانوں کا بوجھ نہیں اٹھا پائے گا۔

مزید پڑھیں:  اول خویش ' بعد درویش؟