رمضان اور مہنگائی میں اضافہ

پشاور سمیت صوبہ بھر میں رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی کھانے پینے کی اشیاء اور پھلوں کی قیمتیں بے قابو ہو گئی ہیں دکانداروں نے ہر چیز کی قیمت میں پچاس روپے تک مزید اضافہ کردیاہے اوریہ اضافہ خودساختہ قراردیاجارہاہے جس کے باعث اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی عوام کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیںحسب سابق ماہ صیام میں قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی کا جادو سر چڑھ بولنے لگا ہے رمضان المبارک کی آمد پرمہینے کے دوران کھانے کی کچھ مصنوعات کی زیادہ مانگ کی وجہ سے عموماً پھل، چینی، چنے کا آٹا وغیرہ کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں اور عید تک بڑی حد تک اونچی رہتی ہیں۔ اس رجحان کا ایک حصہ طلب اور رسد کے قوانین سے تعلق رکھتا ہے بعض مصنوعات کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ اور دوسری جانب بہت سے صارفین اپنی ضرورت سے زیادہ خریداری کرتے ہیں، جبکہ خیراتی ادارے اور افراد جو اس مہینے کے دوران ضرورت مندوں میں راشن تقسیم کرتے ہیں وہ بھی بڑی تعداد میں کھانے پینے کی چیزیں خریدتے ہیں۔جس کی وجہ سے تاجروں کو مہنگائی کرنے کا موقع ہاتھ آتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لالچ، اور قیمتوں کی نگرانی کا ایک غیر موثر طریقہ کارکو بے ایمان تاجر سنہری موقع گردان کر سرگرم ہو جاتے ہیں اگرچہ گزشتہ دو سالوں کے مقابلے میں مہنگائی مجموعی طور پر کم ہوئی ہو گی، لیکن بہت سے محنت کش افراد کو اب بھی اپنا پیٹ بھرنا مشکل ہو رہا ہے، اور رمضان میںقیمتوں میں اضافے نے عام پاکستانی کی قوت خرید کو مزید محدود کر دیا ہے، جس سے لوگوں کے لیے افطاری یا سحری کا معقول انتظام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔رمضان میں قیمتوں کو مستحکم کرنے اور مستحق شہریوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے کم آمدنی والے شہریوں کو فراہم کردہ براہ راست ٹارگٹڈ سبسڈیزکی فراہمی انہیں مہینے کے دوران مناسب کھانے کا بندوبست کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ یہ نقد رقم کی منتقلی کے ذریعے، یا خصوصی بچت یا رمضان بازاروں کا اہتمام کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔لیکن مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے اعلانات کے باوجود ہنوز مستحقین منتظر ہیں انتظامیہ کو مقررہ نرخوں پر اشیاء کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ بازاروں میں دستیاب مصنوعات مناسب معیار کی ہوں۔ ایسے بازاروں کی ضرورت ہے جہاں معیاری سبسڈی والی اشیا کا ذخیرہ ہو۔ اس بات کو یقینی بنایا جا ئے کہ تاجر رمضان کی قلت کے نام پر منافع خوری نہ کر سکیں صارفین مہنگی اشیاء کا بائیکاٹ کرکے اپنی مدد آپ بھی کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  داخلی پالیسیوں پر ازسر نو غور کی ضرورت