ماضی میں پرسکون سادہ اور پر خلوص ہونے کی حامل طرز زندگی تھی ماضی حال قریب کے لوگ تبدیلی سے روشناس ہونے لگے ہمارا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے چالیس ‘ پچاس سال کی عمر کے لوگوں کے مشاہدات و تجربات الگ اور اس سے کم عمر افراد کی بودو باش اور مزاج جداگانہ لیکن دونوں عمری طبقہ میں قدر مشترکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے جس کی رگ رگ (محاورتاً) سے نئی نسل نہ صرف آگاہ ہے بلکہ اس کا استعمال بھی جانتی ہے جبکہ اس سے پہلے دور کی نسل کے لوگ اس کا استعمال کسی حد تک ہی جانتے ہیں بعض کو تو اس سے دلچسپی ہے اور وہ سیکھتے بھی ہیں کچھ لوگ تو بس جتنا سمجھ میں آئے اسے کافی جانتے ہیں اور مزید سیکھنے کے بھی خواہشمند نہیں دفتری لوگوں کی بہرحال مجبوری ہے کہ وہ اتنا ضرور سیکھیں کہ کام چلا سکیں نئی نسل کے تو کیا کہنے سال ڈیڑھ سال کے بچے ابتداء ہی مہارت سے کرتے ہیں اتنے چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں موبائل اور سکرین والے آلات دینا ان کو اپنے ہاتھوں خرابات میں دھکیلنے والی بات ہے اس ٹیکنالوجی کے مفید اور نافع ہونے کے بارے میں سوال نہیں لیکن اس کا کس حد تک استعمال مفید ہے اس کا تعین ہونا چاہئے خرافات و خرابات کا تو ہر کسی کو اندازہ بھی ہے اور علم بھی اس کا ذہنی اذیت کی ایک بڑی وجہ ہونے پرلوگوں کی توجہ کم ہی جاتی ہے امریکی ماہر نفسیات جو راتھن ہیڈ کے مطابق تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا بھر کے نوجوانوں پر ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا منفی اثرات مرتب کر رہی ہے آج کل کی نئی نسل مائوں کی گود میں کم اور سمارٹ فون کے ساتھ زیادہ پروان چڑھ رہی ہے جو انہیں آہستہ آہستہ کرکے ماحول سے الگ تھلگ کرنے کا باعث بن رہا ہے ایسی ہی صورتحال رہی تو وہ وقت دور نہیں جب وہ ماحول سے بالکل کٹ کر رہ جائیں گے ۔1995ء سے 2010ء تک پیدا ہونے والی نسل جنریشن زی کہلاتی ہے جس کے لئے زومرز کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے یعنی وہ نسل جو متعدد وجوہات اور عوامل کی بنیاد پر سب سے منفرد ہے اور انہیں پیدائشی ڈیجیٹل کی حیثیت حاصل ہے زومرز یا جنریشن زی سوشل میڈیا میں مستغرق رہتی ہے اور ان کا زیادہ تر وقت سکرین پر نظریں جمائے گزرتا ہے جس کے باعث ان کا اس کے منفی اثرات سے متاثر ہونا فطری بات ہے ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ نئی نسل کو سوشل میڈیا سے اس قدر جڑنے نہ دیا جائے کہ وہ اسی کے ہو کہ رہ جائیں مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز سنتا ہی کون ہے آج کل تو نوجوانوں اور سمجھدار بچوں کو تو کیا چھوٹے بچوں کو پرسکون کرنے کا سب سے آسان طریقہ ہی یہ بن گیا ہے کہ اسمارٹ فون ‘ ٹیبلٹ یا دیگر ڈیجیٹل ڈیوائس سونپ دی جائے مائوں کے سمارٹ فون چھوٹے بچوں ہی کے قبضے میں ہوتے ہیں جبکہ مائیں بھی اس میں پوری طرح قصور وار ہیں کہ وہ بچوں کو خاموش ہی نہیں بلکہ ساکت رکھنے کے لئے ان کو سمارٹ فون اور ٹیبلٹ تھما دیتی ہیں جو گھنٹوں گھنٹوں اس سے اس طرح جڑے رہتے ہیں کہ واش روم کے لئے اس وقت بھاگتے ہیں جب مزید برداشت کرنے کی گنجائش نہ رہے کھانے کا تو ان کو ہوش ہی نہیں ہوتا یوں وہ ایک ایسے تصوراتی دنیا کی رنگینیوں کے عادی ہوتے ہیں جن کا عملی طور پر وجود و حصول پوری طرح ممکن ہی نہیں ہوتا ایسے میں ان کے اعصاب اور اذہان جو اثرات قبول کرتے ہیں وہ ذہنی انتشار عدم اطمینان غصہ اور عدم برداشت کی صورت میں سب کے سامنے ہے ۔بگڑتے کیسے ہیں اور کس وحشی پن کا شکار ہوتے ہیں کراچی کا حالیہ واقعہ اس کی مثال ہے میں نے
گزشتہ کالم میں بھی اس واقعے کا حوالہ دیا تھا اس واقعے کی جتنی تفصیلات سے آپ آگاہی حاصل کرتے جائیں اس قدر بھیانک حقائق کے دروا ہوتے جائیں گے اب تو ہر ماں کو ڈرنا چاہئے ہر باپ کو فکرمند ہونا چاہئے مشکل یہ کہ اب والدین کا اولاد پر خواہ وہ بیٹیاں ہو یا بیٹے گرفت کمزور اور ڈھیلی پڑتی جارہی ہے اور والدین چاہنے کے باوجود بھی اولاد کو اس ڈگر پر نہیں ڈال سکتے جو درست راستہ ہو بہرحال ہم ایک سٹیج آگے نکل آئے اس مرحلے پر چلے ادھر جدھر کو ہوا چلی والا معاملہ رہتا ہے مگر اس سے کم عمر بچوں پر توجہ اور ان کی ا صلاح پر ماں باپ توجہ دیں تو یہ نوبت نہیں آئے گی والدین کو اس بات سے آگاہی ہونی چاہئے کہ بچوں کو ڈیجیٹل ڈیوائس تھمانا اپنے ہاتھوں ان کو ہلاکت کے راستے پر ڈالنے کی ا بتداء ہے مگر اسے بدقسمتی ہی کہئے کہ اکثر والدین خواہ وہ دنیا کے جس بھی ملک کے باسی ہوں خود ہمارے معاشرے ہی میں جانے انجانے اپنے ہاتھوں اپنے بچوں کو دلدل میں دھکیل رہے ہوتے ہیں سائبر سیکورٹی فرم Kaspersky کے ایک حالیہ سروے کے مطابق 89فیصد والدین بچوں کو مصروف رکھنے کے لئے ڈیجیٹل گیجٹس کا استعمال کرتے ہیں
بطور خاص توجہ طلب امر یہ ہے کہ 78فیصد بچوں نے کہا کہ وہ ان آلات کے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ اپنے بچوں کو آنکھیں بند کرکے اس دنیا میں مگن ہوتے دیکھنا وہ بڑی غلطی ہے جس کا ارتکاب ان کے مستقبل تعلیم و صحت بشمول ذہنی وجسمانی صحت رویہ اور طرز عمل سبھی کو دائو پر لگنے دیکھنا ہے والدین کی غیر ذمہ داری لاتعلقی بلکہ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ انٹرنیٹ کے محفوظ اور مناسب استعمال کے موضوع پر بات ہی نہیں کرتے ماہرین کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین سکولوں ‘ کالجوں اور جامعات میں اساتذہ اس موضوع پر کھل کر بات کریں اور نئی نسل کو ان کی حدود اور خطرات سے آگاہ کرے گیجٹس نشہ آور چیز کی حیثیت بھی رکھتے ہیں اگر کسی کو شک ہو تو اس کے عادی کسی بچے سے یہ آلات چھین کر دیکھ لیں کہ ان کا رد عمل کیا ہوتا ہے ۔ تین سال سے کم عمر بچوں کو تو اس طرح کے آلات تک رسائی ہی نہیں دینی چاہئے اور جو بچے اس کا استعمال شروع کریں والدین کو سکرین کے وقت کی حد مقرر کرکے اس کی پابندی یقینی بنانے کی ذمہ داری نبھانی چاہئے اپنی اولاد کو آن لائن زیادہ وقت گزارنے کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر بچوں کی سائبر سرگرمیوں پر نظر رکھنے پرتوجہ ہونی چاہئے تاکہ انہیں نامناسب خطرناک اور پرتشدد مواد تک رسائی سے روکا جائے مگر یہاں ا لمیہ ہی یہ ہے کہ بچے بطور خاص اس طرح کے کھیلوں کے نام پر خرافات کی طرف سب سے زیادہ راغب ہوتے ہیں اور گھر گھر میں اسی کھیل میں مصروف دکھائی دیتے ہیں آن لائن چھپے شکاریوں سے گھر میں بیٹھابچہ بھی محفوظ نہیں سرکاری اداروں کو اس حوالے سے بطور خاص شعور و آگہی اور رہنمائی مہم چلانے کی ذمہ داری نبھانی چاہئے تاکہ والدین اور بچوں دونوں کی مناسب رہنمائی اور ان کو خطرات سے آگاہی و بچائو بارے مدد ہو اور وہ ان انجانے خطرات سے دور رہیں جو ان کو دلدل میں کھینچنے اور دھکیلنے کا باعث ہوں۔
