صوبائی دارالحکومت پشاور میں بی آر ٹی کے اجرا کے بعد ٹریفک کے مسئلے کے حل کی جو توقع کی جا رہی تھی وہ پوری نہ ہو سکیں اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ بی آر ٹی کاریڈور اورسٹیشنز سے نکلنے کی گزرگاہوں کی سیڑھیوں کو مقررہ حدود سڑک کی حدود سے باہر لگانے کی بجائے فٹ پاتھ پر نصب کر کے سڑک کو کئی مقامات پر تنگ کرنا تھا جس کے جائزے کے بعد اب حکام نئے سرے سے پشاور کی واحد مرکزی سڑک یونیورسٹی روڈ پر ٹریفک کی رکاوٹ ٹریفک کے بہائو کی راہ میں رکاوٹ بننے والی آہنی سیڑھیوں کو ہٹانے میں مصروف ہیں اس امر کو دہرانے کی ضرورت نہیں کہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں منصوبہ بندی کا فقدان وہ عمل ہے جس کے باعث آوے کا آوا بگڑا ہوتا ہے اس کی ایک تازہ مثال محولہ اکھاڑ پچھاڑ ہے بہرحال حکام سے یہ توقع عبث ہے کہ مستقبل کی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر منصوبے بنائیں گے اور اس پر عمل درامد کی زحمت کی جائے گی بہرحال بعد از خرابی بسیار کمشنر پشاور ڈویژن کی جانب سے یونیورسٹی روڈ میں رکاوٹوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بی آر ٹی روٹ پر چلنے والے غیر قانونی بسوں اور ویگنوں کے مکمل خاتمے کی ہدایت کے بعد توقع ہے کہ اس ضمن میں ایسے اقدامات یقینی بنائے جائیں گے جس کے نتیجے میں بھاری معاوضوں کی وصولی کے باوجود بی آر ٹی روٹس پر بسیں اور ویگن چلانے کے عمل کا خاتمہ ہوگا۔ بی آر ٹی منصوبے کے جو خدوخال بیان کیے گئے تھے اس کے مطابق دیکھا جائے تو بی آر ٹی سروس نہ صرف بسوں کی تعداد کے لحاظ سے ادھوری ہے اور نہ ہی منصوبے کے مطابق فیڈر روٹس کا اجرا ممکن بنایا جا سکا ہے علاوہ ازیں بھی بی آر ٹی کا خسارہ کم سے کم کرنے کے لیے جو تجارتی عمارتیں تعمیر ہونی تھیں ان کی تکمیل بھی باقی ہونے کے باعث منصوبہ ادھورا اور خسارے کا شکار ہے ان معاملات کا یکبارگی کے ساتھ جائزہ لے کر ان کا حل تلاش کیا جانا چاہیے اور آئندہ اس طرح کی غلطی کا اعادہ کرنے کے امکانات کو معدوم کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے جس کے نتیجے میں حکومت اور سرکاری خزانے سے بار بار خرچ کرنے کی نوبت آتی ہے۔
