سانوں لگ گئی بے اختیاری

سرائیکی زبان کا ایک بہت خوبصورت گیت یاد آگیا ‘ غالباً محمد جمن نے گایا ہے یاپھرشاید میں گانے والے کے نام کے حوالے سے بھول چوک کا شکار ہو گیا ہوں ‘ بہرحال گیت ہے بہت ہی دلنشین جو کچھ یوں ہے کہ
یار ڈاہڈی
سینے دے وچ اے سمائی ہے
سانوں لگ گئی بے اختیاری
اس گیت کے یاد آنے کی وجہ سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری کا وہ بیان ہے جو انہوں نے گزشتہ روز پہلی سحری کے موقع پرعوام کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد میرے پاس اختیار نہیں اختیار دیں تو کراچی میں پانی اور ٹریفک کا مسئلہ حل کر دوں گا ‘ یہ نہ کرسکا تو اگلے گھنٹے ہی مجھے اتار دیں نمائش چورنگی میں گفتگو کے موقع پر گورنر سندھ نے کہا کہ یہ روشنیوں کا شہر ہے اس کو مجرموں کا شہر نہیں بننے دیں گے کراچی میں اب دہشت گردی اور ٹریفک گردی نہیں چلے گی ۔ گورنر سندھ کا بیان پڑھتے ہوئے پہلے تو ہم یہ سمجھے کہ ان کا اشارہ شاید اختیار ولی کی جانب ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اختیار ولی کو ان کے حوالے کردیا جائے دراصل جب سے اختیار ولی کی اپنی جماعت مسلم لیگ نون کے رہنمائوں کے ساتھ پرویز خٹک کے مسئلے پر ان بن ہوئی ہے اور وہ لٹھ لے کر لیگی قیادت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ‘ بلکہ ایک غیر مصدقہ خبر تو یہ بھی سامنے آئی ہے کہ انہوں نے لیگ سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا ہے یا الگ ہو چکے ہیں اور اپنی(سابقہ؟) جماعت کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں ‘ اس کے بعد گورنر سندھ کامران ٹیسوری کے منہ سے ”اختیار” کا لفظ سن کر ہم یہی سمجھے کہ وہ اختیار ولی کو ایم کیو ایم کی صفوں میں دیکھنا چاہتے ہیں ‘ حالانکہ اس دوران ایک خبر یہ بھی آئی تھی کہ اختیار ولی (شاید)اے این پی میں شمولیت اختیار کرنے کی سوچ رہے ہیں اور اس حوالے سے متعلقین میں”روابط” بھی استوار ہو چکے ہیں ‘ جسے سیاسی حلقوں میں ”جواب آں غزل” سے تشبیہ دی جارہی ہے کیونکہ اے این پی کے ایک (سابقہ) دیرینہ رہنما زاہد خان کی ان دنوں لیگ (ن) میں شامل ہونے کی خبریں بڑی گرم ہیں ‘ اور عین ممکن ہے کہ اس کالم کے شائع ہونے تک یہ بیل منڈھے چڑھ بھی چکی ہو ‘ اگرچہ اے این پی کے ذمہ دار ذرائع نے واضح کر دیا ہے کہ ان کے نزدیک زاہد خان کا چیپٹر عرصہ ہوئے بند ہو چکا ہے اور اب ان کے حوالے سے خبریں شائع کرتے ہوئے اے این پی کا حوالہ نہ دیا جائے ‘ تاہم اے این پی والے اس بات سے تو انکار کر ہی نہیں سکتے کہ زاہد خان ایک طویل عرصے تک ان کے ساتھ نہ صرف منسلک رہے بلکہ پارٹی ترجمان بھی رہے ہیں بہرحال یہ اے این پی اور زاہد خان کا اپنا مسئلہ ہے البتہ اگر اب وہ زاہد خان کا ذکر تک نہیں سننا چاہتے تو ہم کیا کرسکتے ہیں ‘ اس لئے اگر ہم نے اختیارولی کی اے این پی میں شمولیت کے حوالے سے سامنے آنے والی خبر پر تبصرہ کر رہے ہیں تو اسے جواب آں غزل کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ‘ اگرچہ یہ تذکرہ بھی برسبیل ہی کے زمرے میں ڈالا جا سکتا ہے ‘ اصل مسئلہ تو کامران ٹیسوری کے بیان میں ”اختیار” کے معنی تلاش کرنے کا تھا ‘ اور جب بات ہماری سمجھ میں آگئی تو محمد جمن(؟) کے گائے ہوئے گیت کی یاد آگئی جس سے گورنر سندھ کی ”بے اختیاری” زیادہ واضح ہو کر سامنے آگئی ہے ‘ لیکن ان کے بیان سے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اسلم رئیسانی یاد آگئے اور اگر ان کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے گورنرسندھ کے بیان کا جائزہ لیاجائے تو کامران ٹیسوری بقول خود ان کے بے اختیار ہوتے ہوئے بھی گھاٹے میں نہیں رہے یعنی جس طرح سردار اسلم رئیسانی نے ایک بار کہا تھا کہ ”ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو کہ نقلی” تو کامران ٹیسوری بھی ”بااختیار ہوں یا بے اختیار” ان کی صحت اور ”اختیار” پر کوئی فرق نہیں پڑتا اس لئے کہ ”گورنر” کے ساتھ جومبینہ ”حلوے مانڈے” دوران گورنری اور بعد از گورنری وابستہ ہیں ان کا اپنا ہی”مزہ” ہے اگر یہ نہ ہوتا تو گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی ان سے زیادہ ”دلبرداشتہ” ہوتے جن سے ایک ایک کرکے اختیارات خود ان کے اپنے ہی علاقے سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ علی ا مین گنڈا پور چھین رہے ہیں بلکہ ان کو مختلف قسم کی ”تڑیاں” بھی لگاتے رہتے ہیں کبھی گورنر ہائوس کی ”گرانٹ” بند کرنے کی دھمکی یہ کہہ کردیتے ہیں کہ گورنر ہائوس کابجٹ”ان” کی مرہون منت ہے کبھی ان سے ”چانسلر” کے اختیارات واپس لے کر انہیں”بے اختیاری” کے گلوٹین کی زد میں لاتے ہیں اور کبھی کچھ اور مسئلہ کھڑا کر کے گورنر ہائوس کی ”بے توقیری” کا ڈرامہ رچاتے ہیں ‘ جبکہ اس کے مقابلے میں وزیر اعلیٰ سندھ گورنرٹیسوری کے لئے اس نوع کا کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کیا ‘البتہ جہاں تک 18ویں ترمیم کا تعلق ہے تو اسے نافذ ہوئے کئی سال بیت گئے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ 18یں ترمیم کی منظوری صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنے پچھلے دور میں صدر کے اختیارات بھی واپس کرکے یا قربانی دے کر اس کے مسودے پر دستخط کرکے دی تھی اور جب صدر کے اختیارات ‘ جن میں اسمبلی کی برطرفی جیسا عیاشانہ اختیار بھی شامل تھا بھی خوشی سے واپس کر دیئے تھے تو گورنر کے اختیارات میں معمولی سی کمی بیشی پر اتنا واویلا چہ معنی دارد؟ اگرچہ بقول کامران ٹیسوری 18ویں ترمیم کے بعد یہ چند ” مناصب” صرف نمائشی ہی رہ گئے ہیں اور ان پر براجمان صاحبان بہادر اس شعر کی تفسیر دکھائی دیتے ہیں کہ
مرے چراغ جلے ہیں کچھ ایسی شرطوں پر
کہ ساری روشنی اس کی ‘ مگر دھواں میرا
تاہم یہ الگ بات ہے کہ اگر ”بندہ ڈھیٹ” ہو تو اس بے اختیاری کے باوجود اپنے لئے گنجائش نکال ہی لیتا ہے جیسا کہ حالیہ سابق دور ایک سابق صدر نے نہایت بے شرمی سے آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ”غیر جانبداری” کے پرخچے اڑاتا رہا اور خودکو پارٹی کا رکن ہی سمجھ کر پارٹی کی پالیسیوں کو زبردستی مسلط کرنے میں اہم کردار ادا کرتا رہا یہاں تک کہ پارٹی کے سربراہ کے آئینی طور پر منصب سے ہٹائے جانے(بذریعہ عدم اعتماد) کے باوجود ہر بات میں اس سے ہدایات لیتا رہا اور آئین کی خلاف ورزی میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے بھی اسے ”لاج” نہ آئی۔ موصوف پر تو مضطر خیرآبادی کا یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے کہ
خدا کی دین ہے موسیٰ سے پوچھئے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں ‘ پیغمبری مل جائے
اس لئے کامران ٹیسوری کو زیادہ دل دکھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس قسم کے مناصب بقول راحت اندوری مرحوم کرائے کے مکان سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے یعنی
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوںگے
کرایہ دار ہیں ‘ ذاتی مکان تھوڑی ہے

مزید پڑھیں:  ملکی صورتحال اور سیاسی قیادت کی ذمہ داریاں