کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے

برسوں سے ہمارے ہاں فکری اور تہذیبی سطح پر ایک جبر کا ماحول جاری ہے اورایسے ماحول میں لوگ ذہنی طور پہ مفلوج ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مُلک بھر میں ایک اکثریت انتہاپسندی، عدم برداشت اور تعصّب کا شکار ہے ۔ ہم میں حقائق کو جاننے اور سمجھنے کی سکت نہیں رہی ، تاریخ اور پیش آنے والے واقعات کو پرکھنے اور اس سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ ہماری ذہنی صلاحیتیں اس قدر کمزور ہوتی جا رہی ہیں کہ اپنے سامنے کے منظر اور اس میں نمایاں کرداروں کی پہچان نہیں کر سکتے ۔ محض ڈگریوں کے حصول میں سرگرداں نوجوان نسل کے سوچنے کا عمل متاثر ہو رہا ہے ۔ ہمارے معاشرہ میں یہ اسی فکری اور علمی زوال کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوتے جا رہے ہیں ۔ کسی کتاب میں یہ قصہ پڑھا تھا کہ فرانس میں انقلاب کی وحشت ناکی اور خون خرابے کے بعد ایک پادری سے پوچھا گیا کہ آپ تو اس انقلاب کے حامی رہے سو انقلاب کے دوران آپ نے کیا کام کیا ؟ اُس نے جواب دیا کہ مَیں زندہ رہا ۔ گویا وہ اس قتل و غارت میں ہلاک ہونے سے بچ رہا اور یہی اس کا کارنامہ تھا ۔ اگر اس حوالے پہ غور کیا جائے تو پھرہمارے ہاں قحط الرجال میں انسانی حقوق اور جمہوری آزادی کا حقیقی دفاع کرنے والوں کی ذات غنیمت ہے کہ وہ اپنے ضمیر کا سودا کیے بغیر زندہ ہیں ۔ ان گمنام لوگوں کی پہچان اور پذیرائی ضروری ہے ورنہ تو یہاں منافقت سے کام لینے والوں اور نورا کشتی لڑنے والے مقبول کرداروں کی پرستش عام ہو چکی ہے ۔ اگرسوشل میڈیا کا چلن دیکھیں اور ٹی وی ٹاک شوز میں مکالمہ سنیں تو معلوم ہو کہ ہمارا معیار کیا ہے اور کس طرح لوگوں کی ذہن سازی کرکے اُنہیں بے سمت کیا جا رہا ہے ۔ گذشتہ سال ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے حوالے سے ایک دوست کے ہاں کچھ نوجوان بحث کر رہے تھے ۔ بھٹو مرحوم کی اچھائی و بّرائی کے ساتھ ساتھ کوئی پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کو گالیاں دے رہا تھا تو کوئی ان کی تعریفوں کے پل باندھ رہا تھا ۔ یہ سب نوجوان بھٹو کی پھانسی کے بعد ہی پیدا ہوئے ۔ وہ بھی ایک اکثریت کی طرح شخصیت پرستی کا شکار تھے جو اس سانحہ کو محض ایک شخص کی پھانسی کا نام دے کر خوش اور غمگین ہو رہے تھے۔ لیکن اس واقعہ کے تناظر میں یہ سمجھنے اور بات کرنے سے عاری تھے کہ ایک ایسا موڑ آیا جس نے اتنی مذہبی ، سماجی ، معاشرتی ، سیاسی اور معاشی اُلجھنیں پیدا کیں جو کسی طور پہ ختم نہیں ہو رہیں اور ہم اپنی راہ کھو بیٹھے ہیں ۔ ہم آج اس واقعہ سے جڑی قانونی پیچیدگیوں کو درست کرنے کو تیار ہیں مگر درسگاہوں میں نئی نسل کو اس کی اصل تاریخ پڑھانے سے گریزاں ہیں ۔ اُستاد حقائق بتانے سے ڈرتا ہے اور طالب علم اپنے ذہن کی تاریکی میں روشنی سے گھبرا جاتا ہے ۔ سب اپنی اپنی جانبدارانہ رائے کو سچائی کی دلیل سمجھتے ہیں ، اسی لیے مکمل سچ اور اصل تاریخ کو جاننے کی سکت ہی نہیں رکھتے ۔حالات کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں ۔ مُلک کی چند درسگاہوں میں کسی موقع پرجب نصابی پڑھائی کے دوران فکری و نظریاتی اعتبار سے مکالمہ ہوا تو کئی لرزہ خیز واقعات پیش آئے ۔ یہی محسوس ہوا کہ ہمارے نوجوانوں کے اذہان میں انتہا پسندی اور نفرت کی آگ کیسے دہک رہی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ حکام نے ان واقعات کی سنگینی پر کبھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی ، یہاں تک کہ ہمارے سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے بھی نوجوان نسل کے ذہنی
رحجانات کو عقلی اور منطقی بنیاد پر بدلنے کی کبھی کوشش نہیں کی ۔ اُنہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اگر کالج یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم سے روشناس کراتے ہوئے بھی مثبت اور فکری لحاظ سے کھل کر بات نہ کی جا سکے کہ جس کا تعلق بھی نصاب سے ہو تو پھر ان اداروں اور اس میں دی جانے والی تعلیم کا کیا فائدہ ؟ یہی کہ طالب علم کو صرف ڈگری دی جائے بھلے وہ کسی ایسی سوچ سے محروم رہے جو اُسے اپنے معاشرتی بگاڑ کے خاتمے اور اپنی نسل کی ذہنی بیداری کے قابل بنائے ۔ اب تو ایک عرصہ سے نیا تماشا دیکھ رہے ہیں کہ چند تجزیہ نگار ، ٹاک شوز کے میزبان صحافی ، سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنما اور وکلاء کسی ٹی وی چینل کے توسط سے مُلک کے نامور پرائیویٹ درسگاہوں میں طالب علموں کے سامنے سٹیج پہ بیٹھ کر مختلف سیاسی موضوعات پر مکالمہ کم اور ایک دوسرے پر نامناسب تنقید زیادہ کرتے ہیں ۔ یہ لوگ جان بوجھ کر کچھ ایسی جھوٹی سچی بات ضرور کرتے ہیں کہ طالب علم اپنے اپنے پسندیدہ سیاسی رہنما کے حق میں نعرے اور تالیاں پیٹنے لگتے ہیں جبکہ سوال و جواب کے وقفہ میں مخالف سیاسی رہنما کے خلاف غلط الفاظ کا استعمال بھی کرتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو ایسی باتوں سے نوجوان نسل کی سوچ کو آلودہ کیا جا رہا ہے ، نسل آگے بڑھنے کی بجائے نفرت اور تعصب کے گڑھے میں گر رہی ہے ۔ اب بھی روشن خیالی اور فکری بیداری کو پاکستانی نظریہ سے انحراف سمجھا جاتا ہے لیکن جس طرح کل کے واقعات اوراقدامات آج کی تشکیل میں اہمیت رکھتے ہیں ، اسی طرح آج کیے جانے والے اقدامات آنے والے کل میں محسوس کیے جائیں گے ۔ لہذا ہمیں ایک پر امن اور فکری لحاظ سے توانا معاشرے کی تعمیر میں اپنا فعال کردار ادا کرنا ہو گا ۔ اپنے اندر کے دروازے بند کرنے سے حقائق معلوم نہیں ہوں گے ۔

مزید پڑھیں:  ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں