پاکستان کی جانب سے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے آخری روز کابل ایئرپورٹ پر حملہ کرکے تیرہ امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے واقعے کے ماسٹر مائنڈ داعش کمانڈر کی حوالگی پر امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کرنا دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری میں یہ صرف وقتی امتنان کا عمل ہے اس سے قطع نظر یہ دہشت گردی کے خاتمے اور دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے میں دونوں ملکوں میں تعاون کی نئی جہت ضرورہے جس کا مستقبل میں آگے بڑھنے کا امکان ہے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں افغانستان کے حوالے سے پاکستانی تعاون ایک مضبوط شعبہ رہا ہے اور اس خاص شعبے میں دونوں ممالک کے تعلقات کو اب دہائیاں ہو گئی ہیں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد جو وقفہ آیا تھا امریکہ میں صدارتی کرسی پر ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے بعد اب دونوں ملکوں کے درمیان خلاف توقع ڈرامائی تعاون کا واقعہ سامنے آیا ہے جس نے گزشتہ دس دنوں میں پاک امریکہ تعاون اور تعلقات کی تجدید کی۔جس کاامریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد کانگریس سے پہلے طویل ترین خطاب میںباقاعدہ ذکر کیا امریکی صدر نے2021 میں کابل دھماکے کے دہشتگرد کی گرفتاری میں تعاون پر حکومت پاکستان سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ اس دہشتگرد کی گرفتاری میں مدد پر پاکستان کا خصوصی طورپر شکریہ اداکرتا ہوںواضح رہے کہ ساڑھے تین سال پہلے داعش نے 13 امریکیوں کو افغانستان میں امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کے وقت ایئرپورٹ جاتے ہوئے نشانہ بنایا بتایا جاتا ہے کہ شریف اللہ نامی دہشت گرد کو سی آئی اے کی دی گئی معلومات کی بنیاد پر پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے گرفتار کیاجو اس حملے کا سہولت کار اور داعش کاکمانڈر ہے ذرائع کے مطابق صدر ٹرمپ نے عہدہ سنبھالتے ہی سی آئی اے ڈائریکٹرکو ہدایت دی تھی کہ وہ ایبی گیٹ دہشتگردی میں ملوث عناصر کو پکڑنا ترجیح بنائیں، سی آئی اے ڈائریکٹر نے عہدہ سنبھالنے کے دوسرے ہی روز پاکستان میں سینئر حکام کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا تھا اورپھر فروری میں ہوئی میونخ سکیورٹی کانفرنس میں بھی پاکستان کے ایک اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار کیساتھ اس معاملے پر بات چیت کی تھی۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور تعاون میں اضافے کے اپنے اثرات ضرور ہیں لیکن اگر اسے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان نے ایک اور افغان شہری کو امریکہ کے حوالے کرکے کابل کو زچ کیا اگرچہ افغانستان اسے اپنا شہری ماننے اور اس کی گرفتاری سے یہ کہہ کر انکاری ہے کہ شریف اللہ نام کے دو تاجک باشندے اس وقت ان کی حراست میں ہیں اس نام کا کوئی افغان باشندہ نہیں بہرحال دو ممتاز عالمی خفیہ ایجنسیوں کے درمیا ن حساس معلومات کے تبادلے اور ملزم کو یقین کے بعد گرفتاری کے بعد اسے کسی ممکنہ غلطی یا غیر متعلقہ شخص کی گرفتاری سے تعبیر کرنے کی گنجائش نہیں کابل کی جانب سے اس سے انکار کی اپنی وجوہات ہیں اگر وسعت نظر سے کام لیا جائے تو داعش پاکستان اور امریکہ کے ساتھ خود افغان طالبان حکومت کی بھی دشمن اور مخالف ہے ایسے میں دشمن کا دشمن دشمن ہی گردانا جائے گا لیکن شاید افغان حکمران ایسا کرنے کیلئے تیار نہیں اور ہ اس گرفتاری سے ہی متفق نہیں گرفتار دہشت گرد کو امریکہ میں عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے اور اس وقت وہ امریکی حکام کی تحویل میں ہیں دوران تفتیش ان کے انکشافات یقینا اہمیت کے حامل ہوں گے نیز ان کے جو دس دن پاکستانی حساس ایجنسی کے مہمان کے طور پر گزرے ہیں اس دوران بھی تحقیقات میں اہم معلومات سامنے آئی ہوں گی جن کی روشنی میں داعش کے نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائی اور اس کے اہم افراد کی گرفتاری میں مدد ملے گی اس تعاون کو مختلف نظر سے دیکھنے کی بھی گنجائش ہے تاہم اس سے اگر داعش نیٹ ورک کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کا آغاز ہوتا ہے تو یہ ایک اچھی پیشرفت ہوگی جس سے دہشت گرد تنظیم کے علاقے سے پائوں اکھاڑنے میں مدد ملے گی تاہم ایسا کرتے ہوئے سرحد کے اس پار بھی دہشت گردوں کے تعاقب کی بھی ضرورت پڑے گی جہاں داعش اور ٹی ٹی پی دونوں کے مضبوط ٹھکانے ہیں جس کے لئے افغان حکومت شاید ہی تعاون پر آمادہ ہواس واقعے کی صورت میںپاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری کا جو موقع ہاتھ آیا ہے پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے احتیاط سے کام لینا ہوگا کہ کہیں یہ دودھاری تلوار ثابت نہ ہواگرچہ امریکی صدر نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے لیکن دونوں ملکوں کی تعلقات کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ مطلب براری کے بعد ہر جائی پن پر اثر آنے میں امریکہ ذرا دریغ کرنے والا ملک نہیں بہرحال اس موقع کو اگر دیگر مفادات سے مبرا ہو کر خطے ے دہشت گردی کے حقیقی خاتمے کے موقع کے طور پرلیا جائے تواچھے نتائج نکل سکتے ہیں ۔
