ٹریفک حادثات میں غیر معمولی اضافہ

جب بھی شہروں کی آبادی بڑھنے لگتی ہے شہریوں کو بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پشاور شہر بھی اب آبادی کے حساب سے بڑے شہروں کے شمار میں آتا ہے ۔ چالیس لاکھ اس کی پاکستانی آبادی ہے اور بیس لاکھ سے زیادہ اس میں افغانستانی آباد ہیں ۔ یوں اس شہر پر دُہرا عذاب ہے ۔ افغانستانی شہری اس شہر میں کسی قانون کو نہیں مانتے ان کے اپنے اپنے علاقے ہیں جہاںوہ ہر قسم کے غیر قانونی کام کرتے ہیں ۔ شہر میں بڑھتے جرائم اور منشیات فروشی میں بھی زیادہ تر یہی افغانستانی شہری ملوث ہیں ۔ مقامی لوگوں نے بھی اپنی بدمعاشی کے لیے ان کو رکھا ہوا ہے ۔یوں یہ شہر بدترین بد انتظامی کا شکار ہے ۔ گزشتہ چند مہینوں سے پشاور شہر میں روڈ پر حادثات کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ۔اس کی وجوہات کی تلاش کی جائیں تو کئی ایک ہیں ۔ پورے صوبے سے لوگ علاج معالجہ ،خریداری اور گھومنے پشاور آتے ہیں ۔یہ لوگ جن گاڑیوں میں آتے ہیں انہیں شہر کے سڑکوں پر ڈرائیونگ کے آداب نہیں آتے ان کی وجہ سے اکثر و بیشتر حادثات رونما ہوتے ہیں ۔ پھر شہر میں غیر قانونی ٹیکیسوں اور رکشوں کی بھرمار ہے جو ٹریفک کے اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے ان کی وجہ سے بھی حادثات معمول بن گئے ہیں ۔شہر کے کسی سکول ، کالج ، یونیورسٹی اور مدرسے میں کبھی کسی کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ٹریفک کے اصول کیا ہیں اور حادثات سے کس طرح بچا جاسکتا ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا کی نصابوں میں ٹریفک سے متعلقہ معلومات لازماً شامل کی جاتی ہیں ۔ زیادہ حادثات کی ایک بہت بڑی وجہ کم عمر بچوں کی ڈرائیونگ بھی ہے ۔ پشاور شہر میں ہر چوتھا ڈرائیور کم عمر ہے اور اس کو کسی قاعدہ اصول اور حفاظتی اقدام کا پتہ نہیں ہوتا مگر وہ روڈ پر نہ صرف گاڑی چلاتے ہیں بلکہ جو کچھ وہ ویڈیوگیمز میں کرتے آئے ہیں وہ سب وہ سڑکوں پر کرتے نظر آتے ہیں ۔ اب تو ڈرفٹنگ معمول کی بات بن گئی ہے ۔ پھر پشاور شہر میں جو چالیس ہزار سے زیادہ سرکاری گاڑیاں ہیں ان میں سے بیشتر گاڑیاں افسران کے بچوں اور کم عمر رشتہ داروں کے استعمال میں ہیں ۔ ان گاڑیوں پر سرکاری نمبر پلیٹس لگے ہوتے ہیں اس لیے ٹریفک کے اہلکار بھی ان کو کچھ نہیں کہہ سکتے اور شہر کی انتظامیہ اور حکومت و عدالت بھی اس سلسلے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے بہت زیادہ حادثات رونما ہوتے ہیں ۔ پھر کسٹم اور ایکسائز اور پولیس نے جتنی گاڑیاں پکڑی ہیں جو نن کسٹم پیڈ ہیں یا کسی مقدمہ کا حصہ ہیں وہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں
اور پسندیدہ لوگوں میں تقسیم کی ہوئی ہیں ۔ان گاڑیوں کا بدترین استعمال ہوتا ہے اور ان کے ذریعہ ٹریفک کے قوانین کو روز پائمال کیا جاتا ہے اور ان کو ڈرفٹنگ اور ریسنگ کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے جس سے ان کو چلانے والوں اور سڑکوں پر لوگوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں ۔ پشاور شہر میں آئس کے نشے کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے آئس کے نشے میں زیادہ تر نوجوان یا کم عمر بچے جب گاڑیاں روڈ پر نکالتے تو وہ نشے میں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان سے حادثات کا ہونا روز کا معمول بن گیا ہے ۔ شام کے بعد بہت سارے بگڑے شہزادے شراب کے نشے میں بھی گاڑیاں نکال کر سڑکوں پر دوڑاتے ہیں چونکہ شام کے بعد قانون سو جاتا ہے اور ان کو کھلی چھٹی مل جاتی ہے اس لیے وہ اپنی من مانی کرتے ہیں ۔ ٹریفک حادثات کی ایک بڑی وجہ سڑکوں پر ریڑھوں اور ہتھ گاڑیوں کا کاروبار ہے جو اب ناقابل یقین حد تک پھیلتا جارہا ہے اب اس مقصد کیلئے
سوزوکی گاڑیوں کا بھی استعمال شروع ہوگیا ہے ۔ پشاور شہر میں اور بورڈ بازار کے اطراف میں روڈ پر ان کا قبضہ ہوتا ہے ۔یہ سڑک کے نصف حصے پر قبضہ کرلیتے ہیں ۔ ان میں زیادہ تعداد افغانستانی شہریوں کی ہے مگر ان کو کوئی کچھ نہیں کہتا ان سے روزانہ کے حساب سے بھتہ لے کر ان کو سڑک پر کاروبار کی اجازت دی جاتی ہے جس کی وجہ سے بھی حادثات رونما ہوتے ہیں ۔ پھر مین روڈ پر ٹریکٹر ٹرالیوں اور بڑی گاڑیوں کی وجہ سے بھی حادثات معمول بن گئے ہیں ۔پشاور شہر میں جہاں بڑی آبادیوں تک جانے کے لیے سلپ روڈ ز دئیے گئے ہیں ان پر رکشوں ، سوزوکیوں ، چنگچیوں ، ٹیکسیوں ، ہتھ گاڑیوں اور غیرقانونی فروٹ و دیگر اجناس کے اسٹالوں اور اشیاء بیچنے والوں کا اتنا رش ہوتا ہے کہ وہاں سے گزرنا محال ہوجاتا ہے ۔ اگر اس شہر کا انتظام دیکھنے والے افراد کی تعداد
دیکھی جائے تو ان سے پورا ملک چلایا جاسکتا ہے مگر ان کی غفلت اور ان کی ذیلی عملے کی کرپشن کی وجہ سے پشاور شہر میں یہ سب کچھ ہورہا ہے ۔پشاور شہر کے کئی ایک مسائل ہیںیہ اب ایک بہت بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے اس لیے ٹریفک کے ان حادثات و واقعات کو کم کیا جاسکتا اور ان کو روکا بھی جاسکتا مگر اس کے لیے منصوبہ بندی اور اس منصوبہ بندی پر عمل درآمد کی ضرورت ہے ۔ یہاں سب سے بڑی ذمہ داری عوام کی بھی بنتی ہے خصوصاً والدین کی کہ وہ اپنے بچوں کو کم عمری میں گاڑیاں نہ دیں ۔ان کو پابند بنائیں کہ وہ ٹریفک کے اصولوں اور قوانین کی پاسداری کریں اس میں ان کا اپنا فائدہ ہوتا مگر یہ والدین اس وقت جاگتے ہیں جب ان کے بگڑے بچے کسی کا گھر اُجاڑ چکے ہوتے ہیں ۔ایک بہت بڑی وجہ حادثات کی موٹر سائیکل بھی ہیں ۔پشاور شہر میں موٹر سائیکلوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے مگر موٹر سائیکل سب سے خطرناک سواریوں میں شمار کی جاتی ہے ۔ آپ شہر میں دیکھیں اسی فیصد موٹر سائیکل سوار
بغیر ہیلمٹ کے موٹر سائیکل چلارہے ہیں ۔پھر نوجوان موٹر سائیکلوں پر ون ویلنگ کرتے ہیں اور کرتب دیکھاتے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ خود بھی حادثات کا شکار ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی زخمی یا موت کے گھاٹ اتارتے ہیں ۔ یہ مسئلہ پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں کا بھی ہے مگر دیگر شہروں کے مقابلے میں پشاور کے لوگ ذرا زیادہ ہٹ دھرم ہیں اور یہاں بدمعاشی کلچر بھی مسلسل پروان چڑھ رہا ہے اس وجہ سے یہاں یہ مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے ۔ حکومت قانون کا نافذ کرکے ، والدین بچوں کی تربیت کرکے اور سکول، کالج اور یونیورسٹیوں اور مدرسے طالب علموں کی ذہن سازی کرکے اس مسئلہ کی شدت کو کم کرسکتے ہیں مگر بدقسمتی دیکھیں کہ اس ملک میں ہزاروں افغانستانی شہر ی بغیر ڈرائیونگ لائسنس کے سڑکوں پر گاڑی چلا رہے ہیں مگر ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ شہر میں سڑکوں پر پارکنگ کا رواج عام ہے مگر اس کے تدارک کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا ۔ حادثات کی ایک بڑی وجہ فٹنس کے بغیر گاڑیوں کا روڈ پر آنا بھی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہر گاڑی کے لیے لازمی ہے کہ اس کے پاس ہر چھ مہینے کا فٹنس سرٹیفکیٹ ہو اس کے بغیر وہ روڈ پر نہیں آسکتی مگر ہمارے ملک میں ایسا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ پھر اس ملک میں تمام لوگ جن کے پاس گاڑیاں ہوتی ہیں وہ ٹائرز کا خیال نہیں رکھتے ۔ وہ ٹائرز جن کی لائف پچاس ہزار کلومیٹر ہوتی ہے وہ لوگ دو دو لاکھ کلومیٹر تک چلاتے ہیں جس کی وجہ سے بھی حادثات رونما ہوتے ہیں ۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے اس لیے کہ ان حادثات کی وجہ سے قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں ۔ پشاور شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کا لوڈ اس کی کیسپٹی سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ جدید ذرائع کا استعمال کرکے بھی ان حادثات سے بچا جاسکتا ۔ اس لیے اس سلسلے میں فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اس لیے کہ یہ حادثات یہ نہیں دیکھتے کہ ان کا شکار صرف غریب ہوں گے ۔ ان کی زد میں اشرافیہ خود یا ان کے بچے بھی آسکتے ہیں ۔تب افسوس کرنے سے بہتر ہے کہ اس کا وقت پر علاج کیا جائے ۔

مزید پڑھیں:  بجلی قیمتیں اور حکومتی دعوے