گلیوں کی غیر قانونی بندش ؟

چند برس پہلے جب ملک میں عمومی طور پر اور خیبر پختونخوا میں خصوصی طور پر دہشتگردی کی کارروائیاں عروج پر تھیں تو صوبائی دارالحکومت پشاور کے مختلف علاقوں میں لوگوں نے اپنی حفاظت کیلئے شہر کے مختلف علاقوں، گلیوں، محلوں ،بازاروں کے داخلی اور خارجی راستوں کو لوہے کے جنگلوں کے دروازوںاور دیگر رکاوٹوں کیساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی تنگ گلیوں میں بھی ذاتی طور پر سپیڈ بریکرز تعمیر کر کے عام لوگوں کی آمد و رفت میں شدید مشکلات پیدا کر دی تھیں، تاہم کچھ عرصہ بعد جب دہشتگردانہ کارروائیوں کی صورتحال بہتر ہو گئی تو ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں نے ان خود ساختہ قسم کے لوہے کے جنگلوں کے دروازوں اور دیگر رکاوٹوں کو ختم کر کے عوامی زندگی کو مشکلات سے نجات دلائی ،مگر اب گزشتہ کچھ عرصے سے مختلف علاقوں میں خود ساختہ سپیڈ بریکروں، جنگلوں والے دروازوں اور دیگر رکاوٹوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع کر دیا گیا ہے، اس حوالے سے شہر کے پوش علاقے گلبہار میں مختلف مقامات پر لوگوں نے خود ساختہ ( مختلف) رکاوٹوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جبکہ گلبہار کے علاقے رشید ٹاؤن میں مختلف گلیوں میں لوہے کے جنگلے لگا کر اور ان کو تالے لگا کر ان گلیوں کو ٹریفک کیلئے خود ہی بند کر دیا ہے، اس سلسلے میں کئی گلیوں میں عام ٹریفک کیلئے قابل استعمال گلیوں کے ایک سرے پر جنگلے بنا کر جبکہ ایک بڑی گلی کے ایک سرے پر نالی کو توڑ کر دیگر گلیوں کیساتھ اس کا رابطہ منقطع کیا گیا ہے، اگرچہ پولیس کانسٹیبل دن رات میں لا تعداد مرتبہ گشت پر رہتے ہیں مگر انہوں نے بھی اعلیٰ حکام کو اس حوالے سے رپورٹ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، ان غیر قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے نہ صرف دن میں مختلف سکولوں کے بچوں کو لانے لے جانے والی ٹرانسپورٹ کو مشکلات درپیش ہوتی ہیں بلکہ عام لوگوں کو بھی اپنی گاڑیاں لاتے لے جاتے ہوئے اضافی سفر برداشت کرنا پڑتا ہے ،سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو سڑکیں اور گلیاں عام ٹریفک کیلئے مختص ہیں ان کو متعلقہ گلیوں کے چند گھروں کے مکینوں نے کس قانون کے تحت جنگلے لگا کر دروازے تعمیر کر کے بند کر دیا ہے، متعلقہ انتظامیہ ان گلیوں کو” غیر قانونی قبضہ مافیا ” سے واگزار کرانے پر فوری توجہ دے، یہ گلیاں کسی کی ذاتی ملکیت نہیں کہ جن پر” یہ شاہراہ عام نہیں ہے” کا قانون لاگو کر کے عوام کیلئے شجر ممنوعہ بنا کر رکھ دیا جائے۔

مزید پڑھیں:  گمنام شاعریست عطا در دیار ِ ما