ملکی ترکی میں خواتین کا کردار

ملکی آبادی میں خواتین کی تعداد نصف بلکہ بعض محتاط اندازوں کے مطابق اس سے بھی قدرے زیادہ ہونے کے پیش نظر خواتین کو ملکی ترقی میں اہم کردار سونپے بغیر ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا بلکہ اس کلیہ کو دنیا کے کسی بھی معاشرے پر منطبق کیا جا سکتا ہے اور ترقی یافتہ ممالک کو دیکھا جائے تو وہاں خواتین کو اہم سماجی، تعلیمی اور خصوصاً معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ دیکر ہی ترقی کے منازل طے کیے گئے ہیں بدقسمتی سے ہم اگر ہمارے ہاں عورت کو صرف گھر کے اندر بند کر کے انہیں بے کار محض سمجھنے کی پالیسی ہی کو بروئے کار لا کر آبادی کے اس اہم طبقے کو فالتو شے سمجھا گیا ہے، خاص طور پر دیہی زندگی میں انہیں وہ حیثیت اور وقعت کبھی نہیں دی گئی جس کی ایک مسلم معاشرے میں طے کر دی گئی تھی، اسلام نے حصول علم کیلئے مردو عورت کی کوئی تخصیص نہیں کی نہ ہی ان میں صنفی امتیاز برتنے کی کوئی سوچ پیدا کی بلکہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے سب کو ترغیب دی ،لیکن تنگ نظری اور صنفی امتیاز کے رجحان نے مردوں کے مقابلے میں عورت کو بہت پیچھے دھکیل کر اس پر جو ظلم کیا اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ ہم دنیا کی دوسری اقوام کے مقابلے جہالت، پسماندگی اور سماجی پستی کی علامت بنے ہوئے ہیں ،اس کی ذمہ داری قیام پاکستان کے بعد مختلف ادوار میں قائم ہونیوالی حکومتوں کے سر ہے جنہوں نے تعلیم کے شعبے کو بری طرح نظر انداز کرتے ہوئے سالانہ میزانیوں میں تعلیم کیلئے اتنا حصہ بھی نہیں رکھا جسے اونٹ کے منہ میں زیرہ برابر ہی قرار دیا جا سکے، ملک پر جاگیرداری نظام مسلط کر کے باثر افراد کے ایماء پر چند بڑے شہروں کے برعکس دیہی علاقوں میں سکولوں، کالجوں کے قیام کو ایک طرح سے شجر ممنوعہ بنایا، ایسی صورت میں جب لڑکوں کیلئے سکولوں کی کمی ہو وہاں کالجوں کی کمی تو ایک طرف لڑکیوں کیلئے پرائمری سطح تک بھی تعلیمی ادارے ایک خواب سے کم نہیں تھے، ایسی صورت میں تعلیم نسواں کی صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،اور یوں پروان چڑھنے والی نسلیں خصوصاً بچیاں اور خواتین ذہنی غلام بن کر رہ گئیں، خواتین کو حصول علم سے محروم رکھنے کی یہ پالیسی ملک کی نصف سے بھی تقریباً زیادہ آبادی کو ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی رہی، تاہم بڑی مشکل سے اور سیاسی و سماجی شعبوں میں اہم کردار ادا کرنیوالے خواتین و حضرات کی انتھک کوششوں، اخلاقی دباؤ اور بعض عالمی قوانین کے تحت عورتوں کو ملکی معاملات میں د خیل کرنے کی مجبوریوں کے تحت جبکہ عالمی امداد کے طفیل صنف نازک کو تعلیمی ترقی دینے اور انہیں سماجی شعبوں میں اہم کردار ادا کرنے کے حوالے سے دباؤ کے تحت اب ملک بھر میں نہ صرف تعلیم کے شعبے کو بدتریج ترقی دی جا رہی ہے، بلکہ خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں آگے لانے کے حوالے سے پالیسیاں بھی بروئے کار لائی جا رہی ہیں، جن میں ملک کی نصف آبادی کو خصوصاً سماجی اور تجارتی وصنعتی شعبوں میں کام کرنے کے سلسلے میں ان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، کیونکہ جب تک خواتین کو ان شعبوں میں فعال کر کے آگے نہیں بڑھایا جائیگا ملک ترقی کے حقیقی ثمرات کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکتا، گزشتہ روز خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے گھریلو صنعت اور چھوٹے کاروبار سے منسلک خواتین کو سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز سیکٹر( ایس ایم ای) میں شامل کرنیکا فیصلہ کرتے ہوئے ہدایت کی کہ گھریلو صنعت سے منسلک کاروباری خواتین کو کاروبار میں اضافے کیلئے ضروری سرمائے اور سہولیات کی ترجیحی بنیادوں پر فراہمی یقینی بنائی جائے ،وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ خواتین ہر شعبے میں بہترین انداز میں کام کر رہی ہیں، ملکی ترقی کیلئے خواتین کو مزید مواقع فراہم کرنا ہوں گے اور خواتین کو مرکزی دھارے میں لا کر ہی پاکستان کو عظیم ملک بنا سکتے ہیں، ادھر اس موضوع پر پشاور میں جاری کئے جانیوالے پیغام میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ خواتین کے عالمی دن کے منانے کا مقصد ملک کی ترقی میں خواتین کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے، خواتین ہماری آبادی کا نصف سے بھی زیادہ حصہ ہیں، ملک و قومی ترقی میں خواتین کا کردار مسلمہ ہے، اور ہم انہیں زندگی کے ہر شعبے میں بھرپور مواقع فراہم کریں گے، وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ گنڈاپورکے خواتین کے حوالے سے خیالات یقینا اپنے اندر مثبت پہلو لئے ہوئے ہیں اور امید ہے کہ جو خواتین تجارتی، صنعتی اور خصوصا ًگھریلو صنعتوں میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں ان کی حوصلہ افزائی کیلئے ضروری اقدامات اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائیگی، اس ضمن میں نہ صرف بڑے شہروں میں سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز سیکٹر کی مدد کی جائے بلکہ ان دیہی علاقوں پر بھی توجہ مرکوز کی جائیگی جہاں نیم خواندہ خواتین بھی گھریلو دستکاریوں کے شعبوں سے وابستہ ہیں تاکہ ان کی تیار کی ہوئی اشیاء کو ملکی سطح پر آگے بڑھانے اور ان کو خود کفیل بنانے میں مدد دی جا سکے، اس طرح ان کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔

مزید پڑھیں:  گمنام شاعریست عطا در دیار ِ ما