معلم کاروحانی پدرانہ کردار

روحانی باپ کا تصور مختلف مذاہب اور ثقافتوں میں صدیوں سے موجود ہے، جہاں روحانی رہنما کو والد جیسا درجہ دیا جاتا ہے جو رہنمائی، حکمت اور سرپرستی فراہم کرتا ہے۔ یہ تعلق نہ صرف مذہبی بلکہ جذباتی اور سماجی طور پر بھی گہرا ہوتا ہے۔ مسیحیت میں پادریوں کو”باپ”کہا جاتا ہے جبکہ اسلامی تصوف میں مرشد کی حیثیت ایک رہنما کی ہوتی ہے جو مریدوں کی روحانی ترقی میں مدد فراہم کرتا ہے۔ تاہم، حالیہ دہائیوں میں تعلیمی اور مذہبی اداروں میں ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں اساتذہ اور روحانی رہنماؤں کے ہاتھوں جنسی ہراسانی اور استحصال کے الزامات سامنے آئے ہیں، جس نے اس مقدس تعلق پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔روحانی باپ کا کردار صرف مذہبی تعلیم تک محدود نہیں بلکہ وہ معالج، ثالث اور مشیر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ یہ افراد اپنے پیروکاروں کی روحانی اور جذباتی بہبود کیلئے
مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور مشکل حالات میں ان کا سہارا بنتے ہیں۔ تاہم، جب یہ تعلق طاقت اور اختیار کے ناجائز استعمال میں بدل جائے تو استحصال کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کیتھولک چرچ، ہندو آشرموں، اسلامی مدارس اور دیگر مذاہب کے اداروں میں ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جہاں مذہبی رہنماؤں نے اپنے اثر و رسوخ کا غلط استعمال کرتے ہوئے ان اداروں میں زیر تعلیم بچوں کیساتھ جنسی زیادتی اوران کا استحصال کیا۔ یہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ مسئلہ کسی ایک مذہب تک محدود نہیں ہے۔ دراصل ماہرین نفسیات روحانی استحصال کو جذباتی زیادتی کی ایک قسم قرار دیتے ہیں جس میں ایک بااختیار مذہبی شخصیت اپنے پیروکاروں کو قابو میں رکھنے کیلئے ان کے اعتماد اور جذبات کا استحصال کرتی ہے۔ متاثرین میں احساس جرم، شرمندگی اور خوف پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ شکایت درج کرانے سے گریز کرتے ہیں۔ماہرین سماجیات کے مطابق مذہبی اداروں میں موجود درجہ بندی کا سخت نظام (Hierarchical Structure) بھی اس مسئلے کا ایک سبب ہے۔ پیروکار اپنے رہنماؤں پر بے حد اعتماد کرتے ہیں اور اکثر ان کے اعمال پر سوال اٹھانے سے ہچکچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، احتساب کے موثر نظام کی عدم موجودگی استحصال کو روکنے میں ناکامی کا باعث بنتی ہے۔ قانونی نقطہ نظر سے مختلف ممالک نے مذہبی رہنماؤں کیخلاف مختلف قوانین بنائے ہیں۔ امریکہ میں "Clergy Abuse Prevention Act” جیسے قوانین موجود ہیں جو متاثرین کو انصاف فراہم کرنیکی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم کچھ ممالک میں قانونی کارروائی میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ وہاں مذہبی رہنماؤں کو سماجی اور سیاسی حمایت حاصل ہوتی ہے۔اگرچہ روحانی باپ کا تصور ہمیشہ برقرار رہے گا، لیکن اسے زیادہ شفافیت اور احتساب کے ساتھ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ مذہبی اداروں کو حفاظتی اقدامات متعارف کرانے چاہئیں، جیسے اخلاقی تربیت، آزاد شکایتی کمیٹیاں، اور سخت نگرانی کا نظام، تاکہ پیروکاروں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔روحانی پدرانہ کردار ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ یہ اگرایک طرف امید، رہنمائی اور سکون کا ذریعہ ہے تودوسری جانب اس میں طاقت کے غلط استعمال کے خطرات بھی موجود ہیں۔ مذہبی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور اپنے نظام میں ایسی اصلاحات متعارف کرائیں جو روحانی رہنمائی کو حقیقی معنوں میں محفوظ اور مقدس بنا سکیں۔اسلام میں معلم کے کردار کو ایک مقدس مقام حاصل ہے۔ قرآن مجید میں نبی کریم ۖ کو معلم کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جیسا کہ سورہ جمعہ میں فرمایا گیا (الجمعة: 2) ترجمہ ”وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو ان پر اس کی آیات تلاوت کرتا ہے، انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے”۔اس آیت میں واضح کیا گیا ہے کہ نبی اکرم ۖ کا کام صرف تعلیم دینا نہیں بلکہ تزکیہ اور اخلاقی اصلاح بھی ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (المجادلة: 11) ترجمہ”اللہ ان لوگوں کو بلند درجات عطا فرمائے گا جو ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا”۔رسول اکرم ۖ نے فرمایا (ابن ماجہ) یعنی ”میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں”۔یہ تعلیمات ظاہر کرتی ہیں کہ معلم کا کردار محض معلومات فراہم کرنے تک محدود نہیں بلکہ وہ روحانی اور
اخلاقی تربیت بھی کرتا ہے۔ نبی اکرم ۖ کے اسوہ حسنہ میں شفقت، محبت، صبر اور طلبہ کی اخلاقی اصلاح کے بے شمار واقعات ملتے ہیں۔ بدقسمتی سے، جدید تعلیمی نظام میں بعض جگہوں پر اساتذہ کی تربیت اور اخلاقی نگرانی کا فقدان پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں استحصال اور زیادتی کے واقعات سامنے آتے ہیں۔حرف آخر یہ کہ اساتذہ کا مقدس پیشہ صرف درس و تدریس تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں طلبہ کی رہنمائی، کردار سازی اور اخلاقی تربیت بھی شامل ہے۔ معلم کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کیساتھ عزت و احترام کا برتاؤ کرے اور انہیں اعتماد دے تاکہ وہ اپنی شخصیت کو بہتر بنا سکیں۔ اسی طرح، والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں دلچسپی لیں اور انہیں ایسے تعلیمی اداروں میں بھیجیں جہاں نہ صرف تعلیمی معیار بلند ہو بلکہ اخلاقی اقدار کا بھی خیال رکھا جائے۔معلم کے روحانی پدرانہ کردار کو درست سمت میں برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ تعلیمی اور مذہبی ادارے ایسے قوانین اور تربیتی پروگرام متعارف کرائیں جو اساتذہ کو اخلاقی و روحانی اقدار کی پاسداری کا پابند بنائیں۔ اگر اساتذہ اور روحانی رہنما اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے نبھائیں تو نہ صرف معاشرہ مثبت سمت میں ترقی کریگا بلکہ اس طرز عمل سے اس مقدس رشتے کی عظمت بھی برقرار رہے گی۔

مزید پڑھیں:  ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں