دنیا کی بدلتی صورتحال اور پاکستان

امریکہ دنیا کا سپر پاور ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ امریکہ کا صدر جو کچھ کہتا ہے اس پر من و عن پوری دنیا عمل کرنا شروع کردیتی ہے ۔ امریکہ نے ماضی میں اپنی طاقت اور بالادستی قائم رکھنے کے لیے مختلف جنگوں میں حصہ لیا ہے اور بے شمار پراکسی جنگیں بھی لڑی ہیں ۔ جنگوں سے امریکہ کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اس کی اسلحہ کی انڈسٹری نے کھربوں ڈالر کمائے اور پھر ان جنگوں کی وجہ سے پورا یورپ اور دیگر براعظموں کے ممالک امریکہ کے حکم کے تابع رہے ۔ اس طرح امریکہ نے اپنے حریف روس کو شکست دی اور اب اپنے اقتصادی حریف چین کے راستے میں روڑے اٹکارہا ہے ۔ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ اتنا بڑھا لیا ہے کہ وہاں اس کے حکم کے بغیر کوئی پر نہیں مار سکتا ۔ امریکہ نے ماضی میں بے شمار ملکوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا اور پھر جب اس کی ضرورت پوری ہوئی تو ان کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا ۔ امریکہ کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ حکومت بدلنے سے اپنی پالیسی نہیں بدلتا اور سٹیٹ کی پالیسی کوئی بھی صدر آئے تو ایک ہی رہتی ہے مگر اس دفعہ ایسا نہیں ہے ۔ پہلے امریکہ ڈپلومیٹیک ترتیب سے اپنے کام نکالتا تھا ۔ اب امریکہ براہ راست مداخلت اور زبردستی پر اُتر آیا ہے ۔ امریکہ کی شہ پر یوکرین روس سے لڑ پڑا تھا ۔ امریکی اسلحہ کے زور پر یوکرین نے مسلسل روس کو روکے رکھا مگر اب امریکہ لگ رہا ہے کہ یوکرین کی مدد اور حمایت سے پیچھے ہٹ رہا ہے ۔ اس کی پشت پر کہانی کچھ اور ہے ۔ نیٹویعنی یورپ کے ممالک اپنے جی ڈی پی کا دو فیصد حصہ اپنے دفاع کے لیے دیتے ہیں یہ پیسے عموماً امریکہ کوئی جنگ شروع کرکے اس میں خرچ کرتا ہے اور سارے پیسے واپس امریکہ کے فوج اور اسلحہ انڈسٹری میں پہنچ جاتے ہیں ان پیسوں سے امریکہ نے سولہ مختلف ملکوں میں اپنے بیس بنائے ہوئے ہیں ۔ ان پیسوں سے امریکہ کے فوجی اخراجات پورے ہوتے ہیں ۔ اب ٹرمپ کا مطالبہ یہ ہے کہ یہ دو فیصد سے بڑھا کر پانچ فیصد کردیا جائے اس لیے کہ دو فیصد سے جنگی اور حفاظتی اقدامات پورے نہیں ہوتے ۔ اب اس مقصد کے لیے جب تک ایسے حالات پیدا نہیں کیے جاتے جس کی وجہ سے یورپ اور اتحادی ممالک مجبور ہوں اس وقت تک یورپ اور اتحادی ممالک اس پر غور نہیں کریں گے ۔ یہ پیسے اگر پانچ فیصد تک چلے جاتے ہیں تو یہ دو ٹریلین سالانہ سے زیادہ ہوجائیں گے ان پیسوںسے امریکہ کی بگڑتی معیشت کوسہارا ملے گا اور اس کے حاصل کیے گئے قرضوں کا توازن بہتر ہوگا ۔ یہ سب کچھ وہ سوچ سمجھ کر اور جان بوجھ کر رہے ہیں ۔ ایسے ہی وہ بھارت کو مجبور کرے گا کہ وہ ان سے اربوں ڈالروں کا اسلحہ خریدے اور پھر امریکہ مختلف آبی گزرگاہوں کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے گا ان گزرگاہوں کو صرف اپنے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا اور اگر چین یا کوئی دوسرا ملک ان آبی گزرگاہوں کو استعمال کرنا چاہے گا تو اس پر ٹیرف لگے گا ۔ امریکہ کینیڈا سے بہت زیادہ مقدار میں گیس ، تیل اور دیگر اشیاء و خدمات خریدتا ہے ۔ اب امریکہ اس پر ٹیرف لگا رہا ہے جس سے امریکہ کو کئی بلین ڈالرز کی آمدن متوقع ہے ۔ مشرقی وسطیٰ کے ممالک میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ امریکہ کوکسی بھی معاملے میں انکار کرسکیں ۔ اس لیے ان کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ امریکہ میں مزید سرمایہ کاری کریں جس سے امریکہ کی مارکیٹ کو بوسٹ ملے گا اور چین کے مقابلے میںان کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی ۔ یہ ابھی شروعات ہیں امریکہ کا تجارتی خسارا مسلسل بڑھ رہا ہے اور امریکہ پر قرضوں کا بوجھ بھی بے انتہا بڑھ گیا ہے اس کو کم کرنے کے لیے یہ اقدامات ہورہے ہیں ۔ اگلے چند مہینوں میں دیگر ممالک بھی اس کی زد میں آئیں گے۔ چین اور امریکہ میں مسلسل انٹرنیٹ پر اپنا غلبہ برقرار رکھنے کی تگ و دو جاری ہے اس مرتبہ چونکہ ایلون مسک کو حکومت کا حصہ بنایا گیا ہے اور اس کے پاس عالمی انٹرنیٹ کے کنٹرول کا ایک اچھا خاصا حصہ ہے اب امریکہ ان کوششوں کو تیز کردے گا کہ سٹیلایٹ انٹرنیٹ کو وہ مکمل اپنے قبضے میں لے اس کے لیے وہ دنیا کے ممالک کو مجبورکرے گا اور چین کا راستہ روکے گا ۔ یہی سب کچھ وہ سوشل میڈیا اپیس جو چین کی طرف سے چلائے جارہے ہیں جیسے ٹک ٹاک وغیرہ ان کا اختیار بھی حاصل کرنے کا کام تیز کردے گا ۔ پرانے وقتوں اور اس جدید دور میں جنگوں کی صورتحال بدل گئی ہے ۔اب جنگوں کو اقتصادی میدان میںلڑا جارہا ہے ۔ دنیا کے اس بدلتے منظر نامے میں پاکستان کا کوئی تذکرہ نہیں ہورہا مگر گراونڈ پر دیکھا جائے تو حالات کچھ اور ہیں ۔ امریکہ کا بھارت کے ساتھ قربتیں اور تجارت بڑھانے سے پاکستان پر بے پناہ دباؤ آئے گا جس کا پاکستان اس وقت متحمل نہیںہوسکتا اس
لیے کہ پاکستان اقتصادی طور پر بدترین صورتحال سے دوچار ہے اورپاکستان امریکہ سے کسی بھی قسم کا پنگا نہیں لے سکتا ۔ آئی ایم ایف کی تلوار پاکستان پر مسلسل لٹکتی رہی گی اور جن ممالک کو ہم اپنا دوست سمجھتے ہیں وہ بھی امریکہ کی آشیر باد کے بغیر ہم سے کوئی تجارت اور تعلق نہیں رکھ سکتے۔ ایسے میں افغانستان کے حوالے امریکہ کی نئی پالیسی سامنے آرہی ہے اگر امریکہ دوبارہ افغانستان میں ایک نئے پراکسی جنگ کی شروعات کرتا ہے تو اس کا نتیجہ پاکستان کے لیے مشکلات کی صورت میں نکلے گا ۔ اس لیے کہ افغانستان میں موجود عبوری طالبان کی حکومت پاکستان کے لیے مسائل پیدا کررہی ہے ۔جبکہ امریکہ کی مزید افغانستان میں مداخلت کا اثر بھی پاکستان پر پڑے گا ۔ چونکہ چین کا اقتصادی راستہ روکنے میں
افغانستان اور پھر پاکستان اہم ثابت ہوسکتے ہیں امریکہ کے لیے مگر ان بڑے ملکوں کی اس پراکسی جنگ میں پاکستان میں اقتصادی اور امن وامان کی صورتحال مزید خراب ہوجائے گی ۔ اس لیے دنیا کی اس بدلتی صورتحال میں پاکستان کو سفارتی سطح پر سوچ سمجھ کرفیصلے لینے ہوں گے ۔ موجودہ امریکہ کی سیاسی انتظامیہ صرف ڈالرز کمانے کی نظر سے دنیا کو دیکھ رہی ہے اور اس وقت پاکستان کے پاس ان کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے ۔ پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اور یہاں موجود معدنی وسائل تک رسائی بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت مشکل ہے اس لیے وہ یہاں مزید سرمایہ کاری نہیں کریں گے ۔ افغانستان میں اگر امریکہ اپنے روزانہ کی بنیاد پر ڈالروں کی بیس ملین امداد روک دیتا ہے تو وہاں بھی حالات خراب ہوں گے اور افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت کئی گروپوں میں بٹ جائے گی جس سے وہاں خانہ جنگی پیدا ہوسکتی ہے ۔ پاکستان نے کسی حدتک بارڈر کنٹرول حاصل کرلیا ہے مگر اب بھی بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں سے یہ افغانستانی پاکستان میں داخل ہوسکتے ہیں ۔ پاکستان فوج کے دو ٹوک اور واضح روئیے نے افغانستان کے شرپسندوں کو روکے رکھا ہے ۔ یہ وہ مناسب وقت ہے کہ پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغانستانی باشندوں کو ان کے ملک بھیج دیا جائے اور ان کے ساتھ ایران اور تاجکستان والا معاملہ کیا جائے جہاں افغانستان کے شہریوں کو ایسے داخلے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی وہ ان علاقوں میں قیام کرسکتے ہیں ۔ پاکستان کو اپنے اقتصادی بوجھ کم کرنے کے لیے ان اضافی چالیس لاکھ سے زیادہ افراد کو یہاں سے نکالنا ہوگا ۔ اگر ہم بروقت ایسا نہیں کرتے تو افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت میں یہ لوگ مزید آنے والوں کو ڈھال فراہم کریں گے ۔ پاکستان کا امریکی ریڈار پر اس وقت نہ آنا ایک اچھا شگون ہے لیکن عنقریب امریکہ اپنے مفاداتی جنگ میں ان ممالک کو شامل کرلے گا جن کو وہ پہلے استعمال کرچکا ہے ۔مشتری ہوشیار باش !

مزید پڑھیں:  اول خویش ' بعد درویش؟