نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت کی جانب سے حکومت وقت کی کامیابیوں کا تذکرہ کرنا معمول کی بات ہے صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی اس کا اعادہ کیا صدر مملکت کی جانب سے صورتحال کی جو تصویر پیش کی گئی ہے یا قبل ازیں مختلف صدور کی جانب سے پیش کی جاتی رہی ہے اگر پارلیمان سے خطاب کا حاصل یہ ہی ہے تو پھر بس روایت ہی پوری ہو جاتی ہے یا پھرپارلیمانی ضرورت کو نمٹا لیا جاتا ہے یہ درست ہے کہ پالیسی ریٹ میں کمی اور زر مبادلہ میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن اس اس سے یہ اخذ کرنا کہ یہ کوئی بڑی پیشرفت اور ایسی ٹھوس پیش رفت ہے کہ اس سے ملک کی معیشت کی سمت اب ترقی کی جانب گامزن ہونے جا رہا ہے شاید حقیقت پسندی نہ ہو بہرحال براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا اسٹاک مارکیٹ بھی تاریخی بلندی سطح پر پہنچ گئی دیگر معاشی اشاریوں میں بھی بہتر ی آئی لیکن اگر کسی چیز میں بہتری نہیں آئی تو وہ عوام کی حالت ہے اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی چیز میں بہترین نہیں آئی تو وہ ملک میں سیاسی استحکام اور امن و امان کی صورتحال ہے ان حالات میں کسی حکومت کی کارکردگی کو کس طرح کامیا بی کے نمبر دئیے جائیں معروضی انداز میں دیکھا جائے تو حکومت پاسنگ مارکس لینے کی بھی اہل نہیں بہرحال صدر آصف زرداری نے نئے پارلیمانی سال کے آغاز کے موقع پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان تمام باتوں کو دہرایا جو حکومت اس موقع پر سننے کی متمنی ہوتی ہے صحت اور تعلیم پاکستان کے نوجوان آبادی کی فلاح و بہود اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بارے میں ان کی جانب سے اگرچہ تشویش کا اظہار ضرور کیا گیا لیکن یہ معمول کی تشویش تھی تا ہم صدر آصف علی زرداری کی جانب سے جہاں حکومت پر باریک سی تنقید کی ضرورت محسوس کی گئی وہ ان کے اپنے صوبے اور ان کی حکمران جماعت کی حکومت کے وفاقی حکومت سے معمولی نوعیت کے اختلاف کے حوالے سے تھا اگرچہ سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی جانب سے نئے نہروں کی منصوبہ بندی کی شدید الفاظ میں مخالفت کی جاتی ہے لیکن سرکاری طور پر ان کا وفد وزیراعظم سے ملاقات اور اس موضوع پر گفتگو کے بعد مطمئن لوٹا ہے اس موقع پر حزب اختلاف کی جانب سے بھی حسب دستور ار عادت روایتی شور و غل کا مظاہرہ کیا گیا اور ان کی جانب سے صدر کے خطاب پر سخت تنقید کی گئی ہمارے تئیں صدر مملکت آصف علی زرداری اگر اس موقع پر سنجیدگی سے خواہاں ہوتے تو حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان اختلافات کو طے کرنے میں ثالث کا کردار بخوبی ادا کرنے کی پوزیشن میں تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملک میں کسی بھی جانب سے سیاسی انتشار میں کمی لانے میں سنجیدہ نہیں وطن عزیز پاکستان کو اس وقت جس قدر چیلنجز کا سامنا ہے اور ارد گرد جو افرا تفری پھیلی ہوئی ہے اس کی روشنی میں ملکی حالات کسی کو سازگار نظر نہیں آنے چاہئیں چشم بینا کا تقاضا تو یہی لگتا ہے کہ ان معاملات سے آنکھیں بند کیے بغیر سنجیدگی کے ساتھ ملک کو استحکام کی طرف لے جانے میں حکومت سے لے کر پارلیمان اور ایوان صدر سے لے کر حزب اختلاف سبھی کو مل جل کر اس صورتحال سے نکالنے کے لیے جت جانا چاہیے بہرحال اس کے باوجود صدر اس موقع پر اس حقیقت سے بخوبی واقف نظر آئے اور موجودہ منتخب نمائندوں پر زور بھی دیا کہ وہ اتحاد اور اتفاق کے بارے میں غور ضرور کریں جس کی ہمارے ملک کو اشد ضرورت ہے اس وقت جمہوریت سے لینے کی بجائے اس کو لوٹانے کی ضرورت ہے اور اجتماعی اہداف پر کام کی جانی چاہئے اس کے لیے پارلیمنٹ سے بہتر فورم کوئی اور نہیں ہو سکتا صدر مملکت کے خطاب کو اگر دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے سے تشبیہ دی جائے تو خلاف واقعہ نہیں صدر نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا اب چند دن ان کے خطاب پر بحث کی روایت پوری ہوگی لیکن ملک و قوم کو اس سے بڑھ کر خدمات اور کردار کی ضرورت ہے صرف اچھی تقریریں حالات کو بہتر نہیں بنا سکتی ملک کو الفاظ سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے جس کی ہر سطح پر کمی ہے۔
