اخباری اطلاعات کے مطابق جے یو آئی حکومت کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے وہاں دوسری جانب حکومت سے بھی اقتدار میں شراکت کیلئے رابطوں کی اطلاعات ہیں،یہ دوغلی پالیسی نہ صرف سیاسی حلقوں میں بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے بلکہ عوام کے درمیان بھی جماعت کے کردار پر سوالات کا باعث ہیں ۔ جمعیت علماء عام انتخابات کے بعد پیچ وتاب کی جس کیفیت سے گزر رہی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ پہلی مرتبہ ان کو اپنی پتنگ کی ڈور ایوان اقتدار سے الجھانے میں کامیابی نہیں ہو یا رہی ہے جس کی بناء پر وہ پہلے اپنی بدترین مخالف جماعت تحریک انصاف سے پینگیں بڑھانے اور قربت کاکامیاب تاثر قائم کرنے کی سعی کی سوچی سمجھی مگر پھر ایوان اقتدار کے کام آئے اور اہم بل کی منظوری کا مرحلہ بخیر و خوبی مکمل ہوگیا مگر اس کے باوجود بھی شایدحصول مطلوب میں کامیابی نہ ہوئی تو انتظار کے بعد ایک مرتبہ پھر حزب اختلاف کی باگ ڈور ہاتھ میں لینے کی جدوجہد میں شامل نظر آئی ہے جہاں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سربراہ حکومت اورخاص طور پر ڈیرہ اسماعیل خان میں سیاسی حریف ہونے کے باعث ان کے راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں سیاسی حصہ داری میں شرکت داری اور آئندہ انتخابات ہی میں بازی لے جانے کے لئے میدان میں کم سے کم رکاوٹوں کی یقین دہانی جس کی منشاء سے ممکن ہوسکتا ہے وہاں منہ زور طوفان ہوائوں کا راج ہے جس کا جے یو آئی کی قیادت کو ادراک و احساس ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو کم از کم تحریک انصاف سے کسی خیر کی امید ہونا حقائق کے منافی امر بھی ہے تحریک انصاف کی منہ پھیر پالیسی اور قیادت کا یوٹرن وہ امر ہے جس کی بناء پر کوئی بھی گھاک سیاستدان ان سے معاملت پر تیار نہیں ہو سکتی ایسے میں جے یو آئی کی پالیسی جھولا جھولنے کی حدتک ہی رہ سکتی ہے خلاف توقع اگر جے یو آئی اگر واقعی حزب اختلاف کے پلڑے میں اپنا وزن خلوص سے ڈالنے کی متحمل ہوتی ہے تو یہ اس کی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی ہو گی جس کی توقع کم ہی ہے مستزاد خیبر پختونخوا میں جو بساط بچھنے جارہی ہے اس کے تناظر میں بھی جے یو آئی کے لئے حزب اختلاف کی اتحاد میں کشش کم ہی رہ جاتی ہے حزب ا ختلاف کی جماعتوں کی یہ سوچ بے جا نہیں کہ جے یو آئی دو کشتیوں کی سواری کر رہی ہے جہاں ایک طرف حکومت کے خلاف حزب اختلاف کو متحد کرنے کے لئے کوشاں ہے وہاں دوسری جانب حکومت سے رابطے کرکے شراکت اقتدار کی سعی میں ہے ایسا لگتا ہے کہ اس مرتبہ یہ اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھے گا اور وفاق میں کوئی بڑی سیاسی دراڑ نہ آگئی تو یہ سلسلہ کافی طول پکڑے گا اور جے یو آئی معلق ہی رہے گی۔
