شوگر مافیا کو لگام دیجئے

ویسے توملک میں چینی کی قیمتوں میں استحکام لانے کی کوششیں ایک عرصے سے ناکام ہو رہی ہیں اور مسلسل قیمتیں بڑھنے سے عوام کی پریشانی میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس صورتحال کی ذمہ داری نہ صرف شوگر ملز مالکان پرعاید ہوتی ہے جو شوگر کین کے کاشتکاروں کا استحصال کرتے ہوئے ان سے گنے کی خریداری میں (جان بوجھ کر) تساہل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور گنے سے بھرے ہوئے ٹرک اور دیگر ڈمپرز وغیرہ کو شوگر ملوں کے باہر مہینوں نہیں تو ہفتوں کھڑی کروا کر کاشتکاروں سے من مانے (کم ریٹ) پر گنا خرید کر انہیں پریشان کرتے ہیں پھر چینی بنانے کے بعد شوگر کارٹلز والوں کے ساتھ مبینہ طور پرملی بھگت کرکے حکومت کو چینی کی اضافی پیداوار کی اطلاعات دے کر لاکھوں ٹن چینی برآمد کرنے کے لائسنس حاصل کرتے ہیں اور ملک میں چینی کی قیمتوں میں کمی نہیں آنے دیتے مگر جب حد سے زیادہ چینی برآمد کر لیتے ہیں تو نتیجہ ملک کے اندر چینی کی قلت کی نشاندہی کرکے باہر سے ناقص معیار کی (چقندر یا دوسری اشیاء سے بنانے والی چینی) درآمد کرنے کے پرمٹ لے کر ایک بار پھر ملکی صارفین کو لوٹنے کی سبیل کر لی جاتی ہے ‘ گزشتہ روز سامنے آنے والی ایک خبر کے مطابق ملک کے اندر چینی کی قیمتیں مستحکم رکھنے کے لئے شکر درآمد کرنے کا فیصلہ کیاگیا جس سے چینی بنا کر چینی کی قیمتیںمستحکم کرنے کی کوشش کی جائے گی جبکہ آج جب یہ سطور تحریرکی جارہی ہیں ایک اور خبر کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ چینی افغانستان سمگل نہیں ہو رہی ہے بلکہ برآمد کی جارہی ہے ایک تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب طورخم بارڈر گزشتہ کئی روز سے بند ہے تو چینی کس راستے سے برآمد کی جارہی ہے (خفیہ راستوں سے سمگل ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا) پھر دوسری بات یہ ہے کہ افغانستان میں چینی کا وہ استعمال ہی نہیں جس کی بات کی جاتی ہے البتہ ایک اور خبر کا یہ حصہ قابل توجہ ہے کہ وزیر اعظم نے پہلے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی اب درآمد پر غور کر رہے ہیں اگرچہ چینی کی کمی پوری کرنے کے لئے ایک جانب شکر کی درآمد اور دوسری جانب افغانستان کو چینی کی برآمد پر حیرت کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے یعنی اگر ملک میں چینی کی کمی کی وجہ سے شکر اور چینی درآمد کرنے کی بات درست ہے تو افغانستان کو چینی برآمد کرنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے جس سے ملک میں اپنے عوام کی محرومی میں اضافہ ہو رہا ہے یہ برآمد بھی بند ہونی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  بلوچستان!!! شہرِ آشوب بھی شہر ِآسیب بھی