یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

سات سال پہلے میں نے ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا’ اپنی جگہ’، میں کرائے کے مکا ن میں رہتا تھا اور ہر دوسرا بندہ مجھے یہ کہتا تھا کہ آپ اپنی جگہ لیں اور اپنا مکان بنائیں، ایک روز علماء کرام کی ایک مجلس میں جب چار علماء کرام نے مجھے اسی بات کی تاکید کی تو میں نے مذکورہ کالم لکھا اور اپنے ارادے کی تجدید کی کہ میں مکان نہیں بناؤں گا، مکان کیسے بنا اور اب کہاں ہے یہ میں کالم کے آخر میں بیان کرتا ہوں، معزز قارئین کرام ہم ہر روز اخبارات میں ایسی خبریں نہیں پڑھتے کہ بیٹے نے جائیداد کی خاطر والد، بھائی حتیٰ کہ ماں کو بھی قتل کر دیا اور ایسے واقعات اب معمول بن گئے ہیں، وہ انسان جو خود کو اشرف المخلوقات کہتا ہے اس درجے خود غرض اور بے رحم کیسے ہو سکتا ہے، حقیقت حال یہ ہے کہ جب انسان کے دل و دماغ میں مال و دولت اور دنیا کی محبت سما جائے تو یہی سمجھ لیں کہ وہ ایک اعتبار سے بالکل اندھا ہو جاتا ہے، انسان کا سکون اور اطمینان صرف مال جمع کرنے میں ہوتا ہے لیکن سکون پھر بھی نہیں ملتا، ہر طرف سوائے روپے پیسے، سونے چاندی، زمین اور جائیداد کے کچھ نہ نظر آئے تو ایسے انسان کا پیٹ جو دو روٹیوں سے بھر سکتا ہے پھر کبھی نہیں بھرتا، وہ ہر طریقہ سے مال جمع کرتا ہے، جائز و ناجائز اور صحیح اور غلط کی تمیز یکسر ختم ہو جاتی ہے، ایسے میں انسان سمجھتا ہے کہ شاید وہ تمام دنیا کا مال جمع کر لے گا لیکن ایسا کبھی نہیں کر پاتا لیکن ھل من مزید کی تڑپ اسے دنیا میں الجھائے رکھتی ہے، ایسا انسان مال و دولت کی حرص و ہوس میں اتنا اندھا ہو جاتا ہے کہ وہ تمام اخلاقیات کو تہہ دام تصور کرتے ہوئے صرف مال جمع کرنا زندگی کا مقصد سمجھتا ہے اور اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو روندتا جاتا ہے چاہے وہ اس کے قریب ترین رشتے ہی کیوں نہ ہوں، اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آج کے اس پر فتن دور میں ہماری اکثریت کی ذہنیت ایسی بن گئی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں، صبح اٹھنے کے بعد سے رات کو بستر پر جانے تک انھیں ہر لمحہ یہی دھن سوار رہتی ہے کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ پیسہ آئے، اپنے لیے دنیاوی آسائشیں اور سہولیات فراہم ہوں، بینک میں بہت سا پیسہ ، کشادہ مکانات، جائیدادیں، بڑی بڑی گاڑیاں اور دنیاوی سکون کا ہر سامان میسر ہو، جو جس حال میں ہے وہ اس سے راضی نہیں اور اس حال کو بدلنا چاہتا ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ سکون اور اطمینان ایسے لوگوں کو نصیب نہیں ہوتا، قارئین کرام ہوس کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں ہوسِ مال و زر، ہوسِ جاہ، ہوسِ اقتدار، ہوسِ شہرت وغیرہ شامل ہیں لیکن میرے مشاہدے کے مطابق ان میں خطرناک ترین قسم ہوسِ مال و دولت ہے جو دل میں اندھی خواہشات کے بت تعمیر کر دیتی ہے اور انسان بغیر سوچے سمجھے ان کی پرستش کرنا شروع کر دیتا ہے، میری ناقص رائے میں ہوس ایک ایسی بنیادی بیماری ہے جس سے حسد، انتقام، نفرت اور حرام جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور انسان باطنی طور پر ان روحانی بیماریوں کی آگ میں ہر وقت سلگتا اور جلتا رہتا ہے اور پھر انہی کی سزا کے طور پر پھانسی چڑھتا، ذلیل و خوار ہوتا، قید و بند کی اذیت سہتا ایک جہنم سے دوسری جہنم میں منتقل ہو جاتا ہے، ہوسِ اقتدار و سلطانی ملکوں اور قوموں کو زیر نگین کرتی اور انسانی خون کی ندیاں بہاتی ہے جبکہ ہوسِ مال و دولت خون اور محبت کے رشتوں کا خون کرتی اور مال و دولت کے ساتھ زندگی کا جہنم خریدتی ہے جبکہ ہوسِ جاہ انسان میں تکبر، غرور، بے حسی اور مردہ ضمیری پیدا کرتی ہے ،ضرورت اور حاجت سے زائد مال کمانا اگرچہ جائز ہے لیکن یاد رکھیے جس کا مال جتنا زیادہ ہوگا قیامت کے روز اس کا حساب وکتاب بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا، زیادہ مال ودولت والے کو کل بروزِ قیامت دُشواری اور تکلیف کا سامنا ہوگا اوراُسے دیر تک میدان محشر میں ٹھہرنا پڑے گا جبکہ کم مال والاجلدی جلدی حساب وکتاب سے فارغ ہوجائے گا،لہٰذا قیامت کے حساب وکتاب سے خود کو ڈرایئے،اس سے بھی مال سے بے رغبتی اختیار کرنے میں بھرپور مدد ملے گی، اسی بارے میں امام غزالی فرماتے ہیں کہ مال سے بے رغبتی کا کمال درجہ یہ ہے کہ بندے کے نزدیک مال اور پانی برابر ہوں، ظاہر ہے کہ کثیر پانی کا انسان کے نزدیک ہونا اسے نقصان نہیں دیتا جیساکہ ساحل سمندر پر رہنے والا شخص اور نہ ہی پانی کا کم ہونا ضرر دیتا ہے جبکہ بقدرِ ضرورت پانی دستیاب ہو،پانی ایک ایسی چیز ہے جس کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے،انسان کا دل نہ تو کثیر پانی سے نفرت کرتا ہے اور نہ ہی راہِ فرار اختیار کرتا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ میں اس سے اپنی حاجت کے مطابق پیوں گا، اللہ پاک کے بندوں کو پلاؤں گااور اس میں بخل نہیں کروں گا، انسا ن کے نزدیک مال کی حالت بھی یہی ہونی چاہیے کہ اس کے ہونے نہ ہونے سے اسے کوئی فرق نہ پڑے، انسان کا مقصد حیات آخرت کی کامیابی ہے، اسی کے لیے محنت اور جد و جہد کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، جو شخص ایمان اور عمل صالح کے ساتھ دینا سے رخصت ہوا وہ کامیاب ہے؛ اس لیے کہ اسے جنت کی نعمتیں حاصل ہوں گی اور ہمیشہ ہمیش رہنے والی راحتیں میسر ہوںگی، جن سے بڑھ کر راحت اور سعادت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، یہ احساس ہمیشہ زندہ رہنا چاہیے کہ مرنے کے بعد اللہ پاک کے سامنے پیش ہونا ہو گا اور مال و دولت سے متعلق بھی ہر بات اور ہر معاملے کا جواب دینا ہوگا، اس سے دنیا کی محبت کم ہوگی اور شیاطین کی گرفت سے محفوظ رہنا آسان ہوگا، قارئین کرام ایک آدمی نبی کریمۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسولۖ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جس کو میں انجام دوں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرے اور لوگ بھی محبت کریں، اس پر رسول اللہۖ نے فرمایا کہ دنیا سے بے رغبت ہو جاؤ اللہ تم سے محبت کرے گا اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے نیاز ہو جاؤلوگ تم سے محبت کریں گے، (سنن ابن ماجہ) ، اسی طرح اگر ہمیں سکون چاہیئے تو مال و دولت، جائیدادوں اور بڑے بڑے مکان بنانے میں نہیں بلکہ اللہ کے ذکر میں ہے، قارئین کرام کالم کے آغاز میں، میں نے جس اپنی جگہ اور مکان کی بات کررہا تھا، والدین اور بہن بھائیوں اور دیگر قریبی رشتے داروں کی خواہش اور دباؤ کی بنا پر مکان بنانا پڑا بلکہ یہ ان کے تعاون سے ہی ممکن ہوا، اہلیہ کی خواہش تھی کہ یہ مکان میرے نام ہو، بلا تاخیر جو کچھ اپنے نام تھا بشمول مکان اہلیہ کے نام کر دیا، اس تجربے سے جیسے زندگی ہی بدل گئی ہو، ایسا سکون اور ایسا اطمینان نصیب ہوا کہ اسے قلم بند کرنا ممکن نہیں،ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم سے پہلے کتنے ہی لوگ اسی زمین یا مکان کے مالک تھے اور ہم نے بھی ہمیشہ نہیں رہنا، ہمارے بعد کوئی اور اس زمین یا مکان کا مالک ہو گا، ہمارا اصل ٹھکانہ یہ نہیں ہے، اور جنت کا سکون بھی انسان کے اندر موجود ہے اور جہنم کا آتش کدہ بھی انسان کے اندر ہی موجود ہے، انحصار ہم پر ہے کہ ہم جیتے جی جنت کے مزے لینا چاہتے ہیں یا زندگی جہنم میں ہی گزارنا چاہتے ہیں، کیا خوب شعر ہے کہ
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

مزید پڑھیں:  بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کا رجحان