کورٹ مارشل 1973 آئین کے مطابق

سویلینز کا فوجی عدالتوں میں کورٹ مارشل 1973 آئین کے مطابق ہے؟ آئینی بینچ

ویب ڈیسک: سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں کورٹ مارشل 1973 آئین کے مطابق ہے؟
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی، 7 رکنی بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہررضوی ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ آرمی ایکٹ بنایا ہی اسی لیے جاتا ہے کہ فوج کو ڈسپلن میں رکھا جا سکے۔ وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل میں کہا کہ قانون کا اطلاق کس پر ہونا ہے اور کیسے ہونا ہے یہ طے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میری رائے میں پارلیمنٹ کی بجائے آئین پاکستان سپریم ہے کیونکہ پارلیمنٹ بھی آئین کے تابع ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ایک شق کی بجائے ہمیں آئین پاکستان کو مجموعی تناظر میں دیکھنا چاہیے، کسی قانون کے اطلاق کا معیار کیا ہوگا یہ طے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے عدلیہ کا نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا کل پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں سویلینز کے لیے مزید شقیں بھی شامل کر سکتی ہے؟ جس پر وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا کہ یہ سوال عدالت کے سامنے ہے ہی نہیں، چیلنج شدہ فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 8(5) میں نہیں جانا چاہیے تھا۔
عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ آرٹیکل 8(3) میں بنیادی حقوق سے استثنیٰ دیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ یہ استثنیٰ صرف آرمڈ فورسز تک ہے یا اس کا دائرہ اختیار سویلینز تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 8(3) صرف آرمڈ فورسز کے ممبران کیلئے نہیں، اس میں سویلینز کو بھی لایا جاسکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث سے باقاعدہ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ چلیں مان لیتے ہیں 1962 کے آئین کے تحت ایف بی علی کیس میں سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیا جاسکتا تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں کورٹ مارشل 1973 کے آئین کے مطابق ہے؟ کیا یہ کورٹ مارشل آرٹیکل 175(3) اور آرٹیکل 10 اے کے مطابق ہے؟
وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا کہ اس کا جواب دوں گا مگر پہلے آرٹیکل 8 پر دلائل مکمل کرلوں، ہمیں پہلے یہ طے کرنا ہو گا، کہ چیلنج شدہ فیصلے میں کیا خرابیاں ہیں، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کونسے ایسے نئے نقاط ہیں، جنہیں اس اپیل میں طے کرنا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث سے کہا کہ آرٹیکل 8(5) کی حد تک ہم آپ سے متفق ہیں، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے جسٹس جمال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نہیں آپ متفق ہیں، گزشتہ سال سے یہ کیس چل رہا ہے اور مجھے سوال کا جواب نہیں مل رہا، کیا فوجی عدالتیں آرٹیکل 175 کے زمرے میں آتی ہیں؟ کیا فوجی عدالت بھی عام عدالت کے معیار کی ہی عدالت ہوتی ہے؟
خواجہ حارث نے اس پر کہا کہ میرا اگلا نکتہ یہی ہے، کہ اس سوال کا جواب دوں گا، پہلے آرٹیکل 8 پر ججز کو مطمئن کر لوں جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا استفسار کیا کہ یہ ججز کب مطمئن ہونگے؟ جسٹس مسرت ہلالی کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ میڈم کو بتایا تھا کہ دلائل میں اس حوالے سے ایک نکتہ موجود ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ایڈووکیٹ خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ آپ کو دلائل مکمل کرنے میں مزید کتنا وقت لگے گا؟
وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا کہ میرا خیال تھا چار نکات پر چار دن میں دلائل مکمل کر لوں گا، سماعت آدھا دن ہوتی ہے تو آٹھ دن مزید لگ جائیں گے اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جواب الجواب میں تو خیال کریں اتنا وقت کوئی نہیں لیتا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت 7 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔

مزید پڑھیں:  بنوں میں سی ٹی ڈی اہلکار کو اغواء کرنے کی کوشش ناکام