بلوچستان کے حالات

سیکورٹی فورسز کی جانب سے بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کے محصور مسافروں کو دہشت گردوں کے خلاف نہایت کم جانی نقصان کے عوض بازیاب کرا لینا حیران کن کامیابی ہے جس طرح کی صورتحال میں ٹرین پر حملہ کیا گیا اور جیسے دور دراز مقام اور سر نگ میں ان کو منصوبہ بندی کے ساتھ محصور کیا گیا تھا اس میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے محفوظ کارروائی کرنے کے لیے بہت کم اور ساتھ ہی پرخطر امکان زیادہ تھا صورتحال سے واضح طور پر ایسا لگ رہا تھا کہ نہایت بھاری قیمت پر یہ معرکہ سر ہوگا بہرحال یہ ایک ایسا پراسرار اور رنج دہ واقعہ تھا جس کی پرتیں جب تک پوری طرح نہیں الٹتیں تب تک اس حوالے سے تفصیلات اور معلومات یہاں تک کہ نقصانات کے حوالے سے مزید گنجائش موجود رہے گی ممکن ہے دیگر واقعات کی طرح اس بدترین واقعے کی تفصیلات سے ہم کبھی آگاہ نہ ہو سکیں اس بدترین دہشت گردی کے واقعے کی منصوبہ بندی سے لے کر اس پر عمل درآمد اور یہاں تک کہ اس کے خاتمے تک کی صورتحال سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ بلوچستان میں اب حالات پہلے کی طرح نہیں رہے بلکہ ان کی سنگینی میں اب بہت زیادہ اضافے کا خطرہ ہے اس خدشے کے اظہار کی ایک بڑی وجہ دہشت گردوں کے پس پردہ اور رابطے کی قوتوں کا ایک مرتبہ پھر سامنے آنا ہے جہاں ایک جانب ایک ہمسایہ ملک کے ملوث ہونے کے ثبوت سامنے آئے وہاں دوسرے ہمسایہ ملک سے رابطوں کی بھی تصدیق ہوئی ایسے میں یہ واقعہ صرف پاکستان کے ایک صوبے میں ہونے والا واقعہ نہیں رہا بلکہ یہ دہشت گردی کی ایک اییس واردات بن جاتی ہے جس میں دوسرے ملک بھی ملوث ہوں ایسے میں دنیا کے اہم ممالک کی جانب سے اس واقعے کی صرف مذمت کافی نہیں بلکہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں عملی تعاون کا متقاضی ہے جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کی جانب سے گھات لگا کر حملہ بلوچستان میں ریاست کی کم ہوتی ہوئی عملداری کو سامنے لاتا ہے اگرچہ بی ایل اے کی اس دہشت گردی کو ناکام بنانے میں کامیابی ضرور ہوئی لیکن جب تک اس طرح کی دہشت گردی کے امکانات اور خدشات کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس ضمن میں اطمینان کے اظہار کا موقع نہیں اس موقع پر جہاں بعض بیرونی اور دشمن ممالک کی جانب سے جس روئیے کا اظہار کیا گیا اس پر اتنا افسوس نہیں جتنا افسوس خود ہمارے اپنی جانب سے قومی کردار کے مظاہرے میں ناکامی کا ہے یہ ایسا موقع تھا کہ اس وقت تمام تر اختلافات کو ایک جانب رکھتے ہوئے قومی طرز عمل اختیار کیا جانا چاہیے تھا جس کی کمی محسوس کی گئی جہاں بلوچستان میں موجود عناصر کے خلاف طاقت کے استعمال سے اب دریغ نہیں کیا جانا چاہیے وہاں بلوچ عوام کو یہ باور کرانے کے لیے بھی تمام تر ابلاغی سہولیات کو بروئے کار لانے پر توجہ دینے اور رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے کہ بلوچستان میں عوامی حقوق اور محرومیوں کے نام پر بندوق اٹھانے والے نہ صرف خود گمراہی کا شکار ہیں بلکہ ان کی وجہ سے حکومت کی ساری توجہ عوامی مسائل کے حل کی بجائے ان کی سرکوبی پر رہتی ہے جس کی وجہ سے عوام نظر انداز ہو رہے ہیں جب تک بلوچستان میں ہم اہنگی کی فضا قائم نہیں ہوگی یکسوئی کے ساتھ دینا ممکن نہ ہو گا۔ عوام کی محرومیوں پر خاطر خواہ توجہ بلوچستان میں محولہ عناصر کس طرح سے وسائل اکٹھی کر کے ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں اب تک ان کے اس شعبے پر کاری ضرب لگانے میں کیا امرمانع ہے حکومت کو اب اس کا جواب دینا ہوگا اب بھی اگر مزید وقت ضائع کیے بغیر ان عناصر کو محدود سے محدود تر کرنے میں تساہل کا مظاہرہ کیا گیا تو بہت دیر ہو جائے گی یہ درست ہے کہ ریاست اور حکومت ان عناصر سے برسر پیکار ضرور ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب ان اقدامات میں تیزی لانے کی ضرورت ہے بلوچستان میں سیکورٹی اور قانون کی حکمرانی کے قیام میں اب مزید کوئی دقیقہ فر و گزارشت نہیں کیا جانا چاہیے بلوچستان میں دیر پا امن کا قیام تب ہی ممکن ہو سکے گا جب اچھی حکمرانی قائم ہو صوبے کی معدنی دولت اور دیگر وسائل کو دیانت دارانہ بنیادوں پر صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بروئے کار لایا جائے اورصوبے میں وہاں کے عوام کے حقیقی چنیدہ نمائندوں کو جمہوری عمل آگے بڑھانے کی ذمہ داری سونپی جائے۔اس وقت داخلی طور پر ملک کو جس ہم آہنگی اور استحکام کی ضرورت ہے اس کا ہر فریق کو احساس ہونا چاہئے کوشش کی جانی چاہئے کہ خواہ وہ بلوچستان ہو یا ضم اضلاع یا پھر خیبر پختونخوا کے دہشت گردی سے متاثرہ اضلاع ہر جگہ کے عوام کا اعتمادبحال اور ان کی احساس محرومیوں کایکساں طور پر ازالہ ہونا چاہئے تاکہ کسی کو کسی سے شکایت نہ رہے۔

مزید پڑھیں:  زرعی زمینوں کو لاحق خطرات