بیرون ملک جائیدادیں خریدنے کا رجحان

وطن عزیز سے ڈالر خرید کر بیرون ملک منتقل کرنے کے عمل سے اس سے پہلے ملک میں ڈالر کی قیمتوں کو پر لگ گئے تھے اور ڈالر خرید کر رکھنے کو منافع بخش کاروبار بن گیا تھا وہ کوئی پرانی بات نہیں ویسے دیکھا جائے تو یہ عمل کسی نہ کسی طور جاری چلا آرہا ہے اب رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کے بیرون ملک اراضی خریدنے کے لیے گاہکوں سے رقم لے کر غیر ملکی کرنسی میں تبدیل کر کے دھڑا دھڑ متحدہ عرب امارات بھجوانے کی تشویشناک اطلاعات ہیںاگر دیکھا جائے تو اس کا امکان بھی خود ہماری حکومتی پالیسیوں کاروباری ماحول ٹیکس قوانین اور حالات ہی کا پیدا کردہ ہے لوگ اب اس قدر بد دل ہو گئے ہیں کہ اب اپنا سرمایہ کسی نہ کسی طور بیرون ملک منتقل کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں ایسے میں ان کو اگر کسی ایسے قسم کی سہولت ملتی ہے جس پر وہ سرمایہ لگا سکیں تو پھر ان کو روکنا مشکل ہو جائے گا متحدہ عرب امارات میں ہائوسنگ کے شعبے میں ان کو اس طرح کی کا جو پرکشش موقع دکھایا جا رہا ہے قطع نظر اس کے کہ اس کی حقیقت کیا ہے ایک ہوا سا کھڑا ہو گیا ہے اور لوگ دھڑا دھڑ وہاں پر جائیداد خریدنے میں دلچسپی لینے لگے ہیں اس ضمن میں دیکھا جائے تو حکومتی اداروں کی جانب سے اس حوالے سے جہاں اقدامات کا فقدان ہے وہاں دوسری جانب حکومت ایسے ٹیکس قوانین لاگو کرنے میں ناکام ہے جو ان عناصر کا راستہ روکنے میں ممد و معاون ثابت ہوں حکومت کو جہاں ایک جانب اس معاملے کو قانونی انداز میں نمٹانے کی ضرورت ہوگی وہاں غیر ملکی کرنسی کی غیر قانونی خریداری اور غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر بھجوانے کا بھی سنجیدگی کے ساتھ سد باب یقینی بنانا ہوگا ساتھ ہی ساتھ ٹیکس قوانین کو حقیقت پسند انہ بنانے کے حوالے سے جو قانون سازی التواء کا شکار ہے اسے جلد سے جلد مکمل بنانے کی ضرورت ہے ملک میں کاروبار اور روزگار کے ایسے مواقع پیدا کرنے اور ایسا ماحول دینے کی ضرورت ہے کہ بجائے اس کے کہ ملک سے سرمایہ باہر جائے بیرون ملک سرمایہ کار یہاں پر آکر سرمایہ کاری کو ترجیح دیں یہی ایک مناسب طریقہ اختیار کر کے ہی اس طرح کے حالات سے نمٹا جا سکتا ہے دوسری دیگر تمام صورتیں غیر مؤثر اور خامیوں سے پاک نہیں۔

مزید پڑھیں:  گمنام شاعریست عطا در دیار ِ ما