بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کی برسی پر دہشت گردی کی کارروائی کے زخم ابھی ہرے تھے کہ ٹرین پر حملے کے واقعے نے ماضی کے سب ناخوش گوار واقعات کو پیچھے چھوڑ دیا ۔اس واقعے کی گونج صرف ملکی حدود کے اندر ہی نہیں دنیا بھر میں سنائی دی اور دنیا کے ہر قابل ذکر اخبار نے اس واقعے کو رپورٹ کیا ۔دہشت گردوں کا مقصدریاست اور حکومت کو جھکا کر مذاکرات پر آمادہ کرنا یا مطالبات منوانا تھا یا نہیں مگر وہ اتنی بڑی کارروائی کرکے ایک عالمگیر خبر بنانا چاہتے تھے ۔وہ دنیا کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ بلوچستان میں ایک آگ لگی ہے اوریہاں ایک شورش برپا ہے۔دہشت گرد یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور افواج پاکستان نے اس آپریشن کو طوالت دینے کی بجائے سریع الحرکت کاروائی کرکے مذاکراتی عمل یا مطالبات کی منظوری کی خواہش پر پانی پھیر دیا ۔یہ بلوچستان میں ہونے والی پہلی کارروائی تو ہرگز نہیں مگر آثار وقرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخری بھی نہیں ۔پاکستان کی ریاست کو برسوں ہانکا لگا کر شورش کی جس دلدل میں دھکیلا گیا تھا اس میں فوری واپسی کا امکان موجود نہیں ۔معاملہ اگر بلوچ علٰیحدگی پسندو ں اور ریاست کے درمیان ہوتا تو شاید اونٹ کسی کروٹ بیٹھ ہی جاتا مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان وسائل سے مالامال اس پٹی کا حصہ ہے جسے مغرب چین کی وسائل اور ساحل پر کنٹرول کی حکمت عملی ”موتیوں کی مالا ” کے زاویے سے دیکھتا ہے۔بلوچستان کی عسکریت اور گوادر بندرگاہ پر تعمیراتی کام کاآغاز ایک ساتھ ہوا۔چین گوادر بندرگاہ کی تعمیر پر کمربستہ ہوا تو بھارت نے اس منصوبے کو ہر قیمت پر ناکام بنانے کی ٹھان لی۔2008 میں جب گوادر بندرگاہ پر بہت آہستہ روی سے کام ہو رہا تھا بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل سریش مہتا نے” ہندوستان کی ترقی میں سمندر کا رول ”کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا آبنائے ہرمز سے محض ایک سو اسی میل کی دوری پر بلوچستان کے ساحل پرتعمیر ہونے والی گوادر بندرگاہ سے پاکستان گیس اور تیل کی ایک اہم عالمی گزرگاہ پر کنٹرول حاصل کر لے گا۔گوادر پر خلیجی اور عرب ممالک کے جہاز اور ٹینکر لنگر انداز ہو سکیں گے۔گہرے سمندر والی یہ بندرگاہ افغانستان اور قدرتی وسائل سے مالا مال وسط ایشیائی ریاستوںسے تجارت کا بھی کلیدی مرکز ہوگی۔سریش مہتاکا کہنا تھا کہ چین نے بحر ہندپر غلبہ حاصل کرنے کا ایک منصوبہ بنا رکھا ہے۔اس منصوبے کا نام” سٹرنگ آف پرلز ”یعنی موتیوں کی لڑی ہے۔اس منصوبے کے تحت چین پوری دنیا سے اپنے یہاں تیل لانے کے راستوں کے اہم مقامات پر اڈے تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ان اڈوں کا مرکز بحریہ سے منسلک ہوگا۔ایڈمرل مہتا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت ایک شاہراہ تعمیر ہو رہی ہے جو گوادر کو کراچی سے منسلک کرے گی۔اس طرح کا منصوبہ بھی ہے کہ اس شاہراہ کو قراقرم سے جوڑ دیا جائے گا۔اس طرح چین کو بحر ہند تک رسائی حاصل ہوگی جو بھارت کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔بھارتی بحریہ کے یہ خیالات سی پیک پر پاکستان اور چین کے درمیان2013میں ہونے والے معاہدے سے کم وبیش پانچ سال پہلے کے ہیں ۔گوکہ اس وقت گوادر بندرگاہ کی تعمیر کے معاہدے کو آٹھ سال کا عرصہ ہوچکا تھا مگر ابھی پاکستان اور چین اقتصادی راہداری کے خدوخال پوری طرح واضح نہیں ہوئے تھے ۔بھارت اور امریکہ اس سرگرمی پر گہری نظر رکھے ہوئے اور وہ اس کھیل کو خراب کرنے کے باہمی اصول وضع کرنے کے مرحلے میں تھے ۔بھارت اس منصوبے کو پاکستان کی فیصلہ کن برتری اور اہمیت کے زاویے سے دیکھ رہا تھا اور امریکہ کا خیال تھا کہ پاکستان کی بالادستی کا مطلب تیل اور گیس کی اہم گزرگاہ پر چین کی بالادستی ہے ۔یوں بحرہند میں بالادستی کے دو اہم خواہاں کھلاڑی بھارت اور امریکہ اپنے اپنے خدشات اور خوف کے باعث تیسرے کھلاڑی چین کے خلاف قریب آرہے تھے۔اس قربت کا اظہار گوادر کے گرد سرخ دائرہ کھینچ کر کیا گیا تھا ۔دوسری طرف پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہداری اور گوادر کی تعمیر کو گیم چینجر اور چین کا ماسٹر سٹروک جیسے ناموں سے پکارا جانے لگاتھا ۔پاکستان کا خوش گمان طبقہ امید اور امکانات کی کہکشائوں میں اُڑ رہا تھا کہ اس کا خیال تھاکہ تاریخ میں پہلی بار امریکی غلبے سے نکل کر آزاد اُڑانوں کا موقع ملنے کو ہے۔یہ حقیقت ہے کہ گوادر منصوبے کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت حاصل تھی ۔گوادر کے بغیر یہ شاہراہ محض ایک کشادہ سڑک کے سوا کچھ نہیں۔چینی الگ خوش تھے کہ انہیں بحرہند اور خلیجی ممالک تک کم لاگت اور کم فاصلے کے ذریعے رسائی حاصل ہو رہی ہے۔یہاں تک کہ اس وقت چین میں سی پیک پر پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد دوسو سے زیادہ تھی۔سی پیک گوادر چین اور پاکستان کے تعلق کے حوالے سے پاکستان کے تزویراتی ماہرین کی رجائیت کا پارہ بھی بہت بلند تھا ۔2018میں جب سی پیک کے خدوخال پوری طرح نمایاں ہو چکے تھے اسلام آباد کے ایک سیمینار میں چین کے قائمقام سفیرلیجیان ژائو کی موجودگی میں ڈی جی انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اینڈ انالیسس میجر جنرل محمد سمریز سالک نے کہا تھا کہ چین بین الاقوامی تعلقات عامہ کے مضمون کی نئے سرے سے تعریف کرے گا۔تہذیبوں کے درمیان تصادم کی بجائے ہم آہنگی ہوگی۔چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ یورپی یونین کو امریکہ سے دور کرے گا۔یہ چینی اقدام ماسٹر سڑوک ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ستر برسوں میں دو بار پاکستان نے امریکہ کے لئے فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کیا ۔ایک سردجنگ میں سوویت یونین کے خلاف اور دوسرا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ۔اس مرتبہ پاکستان تعمیر کے ارادے سے چین کے لئے فرنٹ لائن ریاست ہوگا۔پاکستان اور چین دونوں نے کوشش کی کہ مغربی دنیا چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے اہم جزوکی حیثیت سے سی پیک کو جیو پولٹیکس کی بجائے جیو اکنامک زوایے سے دیکھے مگر وہ امریکہ اور بھارت ہی کیا کئی علاقائی ملکوں کے تصورات اور نقطۂ ہائے نظر کو تبدیل کرانے میں کامیاب نہ ہو سکے اور کئی قوتوں نے سی پیک اور گوادر کو ناکام بنانے کی مہم کو باقاعدہ ادارہ جاتی شکل دے دی۔بلوچستان چونکہ پاکستان کی پرانی فالٹ لائن تھی جہاں احساس محرومی بھی موجود تھا اس لئے سی پیک اور بلوچستان کی شورش پہلو بہ پہلو ترقی کرتے چلے گئے ۔پاکستان کی ریاست چونکہ ایسے بحرانوں کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کا ریکارڈ نہیں رکھتی اس لئے بلوچستان کی شورش اس کے لئے ایک پھندہ ثابت ہوتی ہوتی گئی ۔نواب اکبر بگٹی کے قتل سے ریاست کا پائوں ایک ایسی بارودی سرنگ پر آگیا جس کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے گئے ۔بلوچ شورش کو جس تازہ شہید کی ضرورت تھی وہ اسے حاصل ہوگیا اور پھر دنوں کے کام منٹوں میں وقوع پزیر ہوتے چلے گئے ۔ایک نسل رزمیہ گیتوں اورآہ وزاری کے سایوں میں پروان چڑھتی چلی گئی۔بلوچستان اور قبائلی علاقوں کی شورش اور مسائل کا مقامی حل نکالنے کی سنجیدہ کوشش یا تو ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی اور اگر کسی مرحلے پر ریاست نے اس کام میں سنجیدگی دکھائی تو کوئی خفیہ ہاتھ اس عمل کو شروع ہونے سے پہلے ہی سبوتاژ کرتا چلا گیا ۔اب اس شورش میں عالمی اور مقامی مقاصد باہم جڑ کر رہ گئے ہیں اوریوں حالات گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتے جا رہے ہیں ۔ریاست کے پاس آپریشن اور طاقت کا استعمال واحد آپشن رہ گیا ہے اور بلوچ علٰحدگی پسند بین الاقوامی قبولیت اور مقامی مقبولیت کی ایسی لہر پر سوار ہو گئے ہیں جہاں سے واپسی ان کے لئے سرینڈر کے مترادف ہے۔پاکستان کے پاس یہ آپشن بھی نہیں کہ وہ دہشت گردی میں ملوث بلوچ شدت پسند کرداروں کو مغربی ممالک سے نکلواسکیں ۔ایسا کام کرنے والے فلسطینی یا کشمیری اگربیرونی دنیا میں ہوتے تو مغربی ملکوں نے ہاتھ کمر کے ساتھ باندھ کراور آنکھوں پر پٹی چڑھا کر انہیں بھارت اور اسرائیل کے حوالے کیا ہوتا ۔ اس کو بین الاقوامی قبولیت کہتے ہیں جس کا کوئی مسلمہ پیمانہ نہیں بلکہ یہ چشمہ نظریہ ٔ ضرورت سے پھوٹتا ہے۔
