ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں

ایک پشتو محاورے کے مطابق مرزا غالب کے”دل کا زور” بھی بہت زیادہ تھا کسی بھی مسئلے کو دیکھتے مرزا صاحب نے اس حوالے سے کوئی نہ کوئی شعر ضرور کہا ہے یہاں تک کہ زندہ تو زندہ موصوف نے متوفیوں(مردہ) کو بھی نہیں بخشا اور کیا خوب کہا ہے کہ
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟
مرزا غالب کے اس شعر کی مختلف اوقات میں عملی صورتگری کے حوالے سے واقعات ہم دیکھتے رہے ہیں خاص طور پر ملک میں جب بھی انتخابا ت کا انعقاد ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ سیاسی حلقے بھی(ایک پیج پر آکر) زندوںکی انتخابی فہرستوں میں نہ صرف مرحومین کے نام ڈال دیتے ہیں بلکہ ان سے ووٹ پول کروانے کی ”وارداتیں” بھی کروا لیتے ہیں اس حوالے سے ایک نہیں کئی لطیفے مشہور ہیں لیکن ایک بہت ہی دلچسپ ہے کہ ایک صاحب ووٹ پول کرنے گئے اور متعلقہ پولنگ عملے سے اپنی مرحومہ اہلیہ کے حوالے سے استفسار کیا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ تو آدھ گھنٹہ پہلے ہی ووٹ پول کر جا چکی ہیں ا نہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا مجھے یقین تھا کہ وہ قبر سے نکل کر ضرور آئے گی اور اس سے ملاقات ہو جائے گی مگر ہمیشہ کی طرح آج بھی اس نے جلدی کی اور میرے آنے سے پہلے ہی ”ووٹ ڈال کر”واپس قبر میں اتر گئی اس طرح کے مرحومین کی جانب سے ووٹ پول کرنے کے واقعات ہر الیکشن کے موقع پر سامنے آتے رہتے ہیںیعنی مرنے کے بعد بھی الیکشن کمیشن اور امیدواران ان مرحومین کو چین لینے نہیں دیتے بلکہ ووٹ دینے پر ”مجبور” کرکے بے چین کردیتے ہیں خیر یہ تو انتخابات کے حوالے سے مرحومین کی ”کفن پھاڑ” سرگرمیوں کی بات ہو رہی تھی مگر اب جو تربیلا سے خبر آئی ہے اس کا تعلق انتخابی معاملات سے نہیں بلکہ پیسکو کے بارے میں ہے جنہوں نے ایک فوت ہونے والے شہری کے خلاف بجلی چوری کا مقدمہ درج کراکے اس پر مرزا غالب کے محولہ شعر کو منطبق کرنے کی کوشش کی ہے ‘ تربیلا کے علاقے غازی کے تھانے میں ایک مرحوم صارف کے خلاف پیسکو والوں نے بجلی چوری کا مقدمہ درج کرا کے نئی روایت قائم کی ہے ‘ اب دیکھتے ہیں کہ بے چارہ”متوفی” قبر سے نکل کر اس الزام کا دفاع کیسے کرتا ہے ؟ تاہم اس کا دارومدار تو پولیس کے متعلقہ عملے پر ہے کہ وہ چالان کب عدالت میں جمع کراتا ہے اور پھر عدالت بھی مرحوم صارف کو کب طلب کرتی ہے؟ بہرحال اس صورتحال پر بے چارہ مرنے والا ضرور سوچتا ہو گا کہ
یادیں تھیں اتنی دفن کہ بعداز فروخت بھی
اس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے
گڑھے مردے ا کھیڑنے کی پیسکو کی اس ”حرکت” کے بعد کچھ اور یادیں ”اکھیڑنے” میں سپریم کورٹ کے ایک معزز جج جسٹس محمد علی مظہر نے بھی ہماری مدد کرتے ہوئے ہمیں”ٹائم ٹنل” میں سفر پر مجبور کر دیا سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران جہاں فاضل پنچ کے دیگر دو معزز اراکین جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس امین الدین نے بھی کچھ سوال اٹھائے وہاں جسٹس محمد علی مظہر نے ایک اہم نکتے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے استفسار کیا کہ سپر ٹیکس ایک مرتبہ خاص مقصد کے لئے لگایا گیا تھا اور ایک مرتبہ سپر ٹیکس لاگو کرنے کے بعد کیا قیامت تک چلے گا؟ فاضل جج کے ان ریمارکس نے ہمیں ماضی میں سفر پر مجبور کرتے ہوئے اس دور میں پہنچا دیا جب پاکستان متحد تھا یعنی دولخت نہیں ہواتھا اس دور میں ہر سال دو سال بعد سابقہ مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلہ دیش) میں سیلاب آجاتا اور وہاں تباہی مچ جاتی وہاں کے عوام کو ریلیف دینے کے لئے ہمیشہ مغربی پاکستان(موجودہ پاکستان) کے عوام مرکزی حکومت کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے دل کھول کر عطیات دیتے تھے اور حکومت بھی صدارتی فنڈ کا اجراء کرکے عوام سے تعاون کرنے کی اپیل کرتی تو اس کی پذیرائی کی جاتی ‘ اسی طرح غالباً 1970 میں وہاں مختلف علاقوں چٹاگانگ ‘ سلہٹ ‘ڈھاکہ ‘ کاکس بازار(Coxus bazar) وغیرہ میں دریا بھپرگئے اور ہزار ہا خاندان بے دردی بلکہ دربدری کا شکار ہوئے تو حکومت نے پٹرول پر ایک روپیہ گیلن(تب لیٹر نہیں گیلن کا پیمانہ استعمال ہوتا تھا) ٹیکس عاید کر دیا جو مشرقی پاکستان کے سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے خرچ کرنا تھا اس کے بعد 1970 کے عام انتخابات ہوئے تو وہاں کے عوام نے پاکستان عوامی لیگ کے چھ نکاتی پروگرام کی پذیرائی کرتے ہوئے ملک کے مشرقی حصے میں عوامی لیگ کو کلین سویپ کرنے میں مدد دی جس کے بعد سیاسی حالات خراب ہوئے اور نتیجہ ملک کے دو لخت ہونے کی صورت برآمد ہوا خیر یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر بحث کسی او وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں جبکہ اصل مسئلہ تو سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کے حوالے سے سامنے آنے والے فاضل جسٹس محمد علی مظہر کے وہ ریمارکس ہیں کہ ایک بار کسی خاص مقصد کے لئے بطور سپر ٹیکس لاگو کرنے کے بعد کیا یہ قیامت تک چلے گا؟ اور اسی حوالے سے ماضی میں پٹرول پرعاید کئے جانے والے ایک روپیہ گیلن ٹیکس کا ذکر”خیر”آگیا تب تیل پر عاید کیا جانے والا یہ ٹیکس ملک کے دو لخت ہونے کے باوجود سالہا سال تک وصول کیا جاتا رہا حالانکہ اس حوالے سے بعد میں ملک میں تنقیدی بیانات بھی سامنے آتے رہے کہ اب جبکہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہوئے بھی مدت ہو گئی ہے تو پٹرولیم پر ”سیلاب ٹیکس” کیا کیا جواز ہے ؟ اس کے بعد تو کئی حکومتیں آئیں مگر ہماری یادداشت میں نہیں ہے کہ آیا ”مشرقی پاکستان سیلاب فنڈز” کے حوالے سے لاگو کیا جاے والا ٹیکس واپس ہوا یا ابھی تک جاری ہے ؟ یہ تو شکر ہے کہ تب تیل لیٹرز کے حساب سے نہیں گیلن کے حساب سے فروخت ہوتا تھا(ایک گیلن میں ساڑھے چار لیٹرز آتے ہیں) ورنہ ایک مدت تک یہ ٹیکس وصول کرنے سے عوام کیا کر سکتے تھے؟بقول عزیز حامد مدنی
طلسم خواب زلیخا و دام بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں

مزید پڑھیں:  تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ملتانی۔۔۔