ملک کے دو بڑے اہم آبی ذخائر رکھنے والے ڈیمز میں پانی کی سطح ڈیڈ لائن کو کراس کرنے کے حوالے سے سامنے آنیوالی خبروں کے بعد ملک میں پانی کی ممکنہ قلت یقینا تشویش ناک ہے اور اس ضمن میں وفاقی حکومت نے تمام صوبوں کو ”بیک اپ” کال دیتے ہوئے اپنے اپنے طور پر ضروری اقدام اٹھانے کا کہا ہے ،انڈس ریور اتھارٹی کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ سنگین ترین آبی بحران کے امکانات ہیں کیونکہ تربیلا ،منگلا اور چشمہ میں پانی کے ذخائر کم رہ گئے ہیں، اس لئے چاروں صوبوں کو ان کی ضروریات کے مطابق پانی کی فراہمی کی جائیگی، دوسری جانب آبی بحران کے امکانات کے باعث 2 ماہ کیلئے چاروں صوبائی حکومتوں کو پانی کے حوالے سے خصوصی اقدامات کرنے اور پانی 2 مہینوں کیلئے بچا کر رکھنے کی ہدایات دی گئی ہیں، ذرائع کے مطابق آبی بحران مئی کے مہینے میں ختم ہونے کی توقع ہے کیونکہ پہاڑوں پر جمی برف کے پگھلنے کے بعد حالات بہتر ہو جائیں گے، جبکہ اس بحران کے سنگین ہونے کے باعث لوڈ شیڈنگ کے دورانیہ میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں پانی کے” ذخائر ” کی تعمیر پر عدم اتفاق کی وجہ سے جہاں ایک جانب کا لاباغ ڈیم منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا جس پر تینوں چھوٹے صوبوں کے شدید تحفظات ہیں، تو دوسری جانب کا لاباغ ڈیم کے باثر حامیوں نے متبادل بلکہ کالاباغ ڈیم سے زیادہ اہم منصوبے ” دیامیر بھاشا ” ڈیم کی تعمیر کی راہ میں مختلف حیلوں بہانوں سے روڑے اٹکانا اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے، اور قومی سطح پر نیتوں کے اس” فطور” کی وجہ سے ہمیں ہمیشہ پانی کی کمی کا سامنا رہتا ہے جس کے اثرات ایک جانب پانی کی کمی تو دوسری جانب بجلی کی کمی کی صورت میں سامنے آتے ہیں اور اب تو بڑے صوبے نے ” پانی ” کے حصول کیلئے جس نہری نظام کی حکمت عملی اختیار کی ہے اس پر سندھ میں احتجاج کی خبریں سامنے آرہی ہیں یہاں تک کہ میر مرتضیٰ بھٹو کے فرزند میر ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے بھی اس احتجاج میں شمولیت اختیار کر کے اور بلاول زرداری نے بھی اس نہری نظام کیخلاف آواز بلند کر لی ہے جبکہ نہری نظام کے حامی وفاقی وزراء اس کیلئے تاویلیں تراش رہے ہیں، اس لئے جب تک بھاشا ڈیم کی تعمیر کی راہ میں روڑے اٹکانے والے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے آبی بحران ختم نہیں ہوگا بلکہ ہر سال یہی صورتحال جاری رہے گی۔
