متفقہ فیصلہ کرنے کی ضرورت

ملک اس وقت دہشت گردی کے جس شدید قسم کی لہر کا شکار ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ قوم بے مثال یکجہتی کا مظاہرہ کرے لیکن بدقسمتی سے اب بھی حکمران ہوش کے ناخن لینے کوتیار نہیں وفاقی اور صوبائی حکومت کے دیگر معاملات میں اختلافات اپنی جگہ اس حساس نوعیت کی صورتحال میں بجائے ہم آہنگی کے الٹا متضاد پالیسیاں اختیار کی جارہی ہیں خیبر پختونخوا کی حکومت کو اس سارے عمل سے الگ رکھنے کی پالیسی حیران کن ہے۔اگرچہ یہ وقت اختلافات کو ایک طرف رکھ کر کلی طور پر پر قومی یکجہتی کے اظہار کا وقت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی اہم صوبے اور شراکت دار بلکہ تمام تر حالات سے متاثرہ صوبہ کی حکومت اور سیاسی و عوامی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر کسی بھی جانب سے کوئی فیصلہ کا اعلان کیا جاتا ہے تو اس کی مخالفت کے حق کے استعمال کی مخالفت کی گنجائش نہیں وزیراعلی خیبر پختون خوا علی امین خان گنڈاپور کی جانب سے افغان مہاجرین کی وطن واپسی سے متعلق وفاقی حکومت کی پالیسی کو تسلیم کرنے سے تحفظات بلا وجہ اور بے جا نہیں ان کا یہ شکوہ بجا اور مبنی بر حقیقت ہے کہ صوبائی حکومت سے مشاورت کیے بنا وفاقی حکومت کی جانب سے افغان باشندوں کی وطن واپسی اور صوبے میں قیام امن اور استحکام امن کے ضمن میں فیصلہ قابل قبول امر نہیں ایک جانب ایک وفاقی حکومت کی جانب سے صوبائی حکومت سے بعد کی کیفیت کے اظہار کا یہ عالم ہے تو دوسری جانب افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے وفاقی حکومت کی صوبے کو آشیرباد کے باوجود صوبائی حکومت کی جانب سے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کو ضابطہ کار کی تیاری سے متعلق مراسلات اور یاد دہانیوں کا جواب دینے سے گریز سمجھ سے بالاتر امر ہے اس ضمن میں وزیر اعلی خیبر پختون خوا کی جانب سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی شکایت اور وفاق سے گلا مندی کا اظہار بلاوجہ نہیں بلکہ دیکھا جائے تو اس کا موقع وفاق ہی کی جانب سے دیا گیا ہے بہرحال اب بھی تاخیر نہیں ہوئی وزیراعظم نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کا جو اجلاس روان ہفتے بلانے کی تیاری میں ہیں اس میں صوبے کے موقف اور تجاویز دینے کا موقع مل سکتا ہے ساتھ ہی ساتھ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان ٹو کی جو تجویز پیش ہونے والی ہے اور حکومت ملک میں دہشت گردی کی صورتحال پرجو کل جماعتی کانفرنس بلانے جا رہی ہے ان مناسب فورمز پر بحث مباحثہ اور موقف پیش کرنے کی پوری گنجائش موجود ہوگی ایسے میں خیبر پختون خوا کی حکومت کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو اس عمل سے دور رکھا جا سکتا ہے اب جب کہ آمدہ دنوں میں اس طرح کے فورمز دستیاب ہونے جا رہے ہیں تو صوبائی حکومت اور یہاں کی حکمران جماعت کی قیادت کو تحفظات کے اظہار کے حق کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ ان فورمز پر بھرپور اور ٹھوس موقف کے ساتھ ساتھ سود مند تجاویز پیش کرنے کی پوری پوری تیاری رکھنی چاہیے اس وقت ملک کے حالات جس یکجہتی اور قومی اتحاد کے متقاضی ہیں اس کے پیش نظر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کی واحد ترجیح دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کی حکمت عملی ہونی چاہیے مناسب ہوگا کہ کچھ عرصے کے لیے بلکہ اس وقت تک کے لیے جب تک دہشت گردی کی اس عفریت کو قابو میں لانے میں کامیابی نہیں ہوتی اور قوم اس سے نبرد آزما ہونے کی کیفیت میں ہے تمام تر اختلافی موضوعات اور معاملات پر گفتگو بھی ہی ترک کرنے کا فیصلہ کر کے اس پر تمام فریق عمل درآمد یقینی بنانے کی ذمہ داری پوری کریں ملک کو ان حالات سے نکالنے کے لیے عساکر پاکستان اور سیکورٹی اداروں خواہ وہ سول ہوں یا فوجی سبھی اداروں اور افراد کو قومی سطح کی ایک ایسے اعتماد کی ضرورت ہے جس میں کوئی جھول نہ ہو دہشت گردی سے براہ راست تصادم اور اس کا انسداد بلا شبہ ان اداروں اور افراد کا فریضہ ہے اور خوش قسمتی سے اس حوالے سے ان کی تاریخ اور قربانیاں شاندار رہی ہیں قوم کی سطح پر اس ضمن میں ذمہ داری کی نوعیت مختلف ہے قوم کی کلیدی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھے بلکہ جس یکجہتی اور اعتماد کی ہمارے حفاظتی اداروں کو ضرورت ہے قوم اس میں کوتاہی نہ کرے جب تک اس درجے کی یک جہتی پیدا نہیں ہوگی قومی ایکشن پلان اور جو بھی حکمت عملی وضع ہوگی اس کی کامیابی میں مشکلات کا سامنا رہ سکتا ہے توقع کی جانی چاہیے کہ ہر سطح پر قومی اتحاد اور یکجہتی کی نظیر قائم ہوگی اور قوم اس مشکل وقت سے اپنے اتحاد کی بدولت سرخرو ہو کر نکل آئے گی۔

مزید پڑھیں:  پاک افغان تجارت کی بحالی