اختلاف کیوں؟

افغان پناہ گزینوں کو ان کے اصلی اور آبائی وطن واپس بجھوانے کی مساعی ہر بار مصلحت کا شکار ہو کر ناکامی سے دو چار ہوتی آئی ہیں اس مرتبہ حکومتی عزم میں سنجیدگی کا عنصر ہے تو وفاق اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت میں اختلافات آڑے آرہی ہے اگر صورتحال اسی طرح رہی تو ملک بھر میں مقیم افغان باشندے پہلے سے آبادی اور وسائل کے دبائو کا شکار خیبر پختونخوا اور بالخصوص پشاور میں جمع ہوں گے اور صوبہ مزید مشکلات کا شکار ہو گادوسرے صوبوں سے ان کی آمد شروع ہو چکی ہے ایسے میں خیبر پختونخوا کی حکومت کا طرز عمل اور پالیسی اہمیت کی حامل ہے کہ اگر یہاں سے بھی ان کے اخراج کا اعلان نہ ہوا تو پھر اس صوبے کی آبادی اور وسائل پر بوجھ اور دبائو میں اضافہ ناقابل برداشت ہو سکتا ہے جسے مدنظر رکھ کر صوبائی حکومت کو فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے وفاقی حکومت کی پالیسی واضح ہے صوبائی حکومت کو بھی اس سے اتفاق پر غور کرنا چاہئے خیبر پختونخوا حکومت کو کم سے کم اس مد میں وفاق سے تعاون کرنے کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے کہ صوبے میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں سے کوئی نرمی نہ برتی جائے اور ان کو ہر قیمت پر بے دخل کیا جائے ان کی بے دخلی کے لئے مقررہ ڈیڈ لائن کے انتظار کی بھی ضرورت نہیں یہ عناصر کسی قسم کی مشکلات اور واقعات کا باعث ہیں اس کا ہر کسی کو بخوبی علم ہے۔وزارت خارجہ واضح طور پرکہا ہے کہ 30لاکھ کے لگ بھگ گئے افغان پناہ گزینوں کووطن واپس بھیجنے کی پوری تیاری کر دی گئی ہے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کی طرف سے رجسٹریشن کارڈ یا پروف رکھنے والے پناہ گزینوں کے اجازت ناموں کے ختم ہونے میں بھی چار ساڑھے چار ماہ رہ گئے ہیں جن کی تعداد 14 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے مشکل امر یہ ہے کہ اس وقت افغانستان کی جو داخلی صورتحال بن گئی ہے ایسے پاکستان سے افغانیوں کی واپسی تو درکنار الٹا سرحدوں پر مہاجرین کے ڈیرے ڈالنے کے خدشات ہیں پاکستان میں موجود افغان باشندوں اور پناہ گزینوں کو اس طرح کی مشکلات کا بخوبی ادراک ہے اور وہ کسی قیمت پر بھی افغانستان واپسی کے لیے آمادہ نہیں صرف یہی نہیں بلکہ افغان پناہ گزینوں کے پاکستان کے مختلف شہروں میں وسیع کاروبار کو سمیٹنا بھی کوئی آسان کام نہیں بہرحال اس سے قطع نظر اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے پالیسی ساز اب با امر مجبوری اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی بدامنی اور اس طرح کے دیگر واقعات میں کمی لانے کے لیے افغان پناہ گزینوں کی مکمل واپسی ناگزیر ہے اگر اس ضمن میں حکومت پاکستان کو کوئی درمیانی راستہ اختیار کرنا پڑا تو بھی اس کا طریقہ کار اب پہلے جیسا نہیں رہے گا بلکہ افغان پناہ گزینوں کو مہاجرین کی طرح کیمپوں تک محدود کرنے کا آپشن موجود ہے جبکہ افغان پناہ گزینوں کے کاروبار اور املاک کے حوالے سے بھی اب سنجیدگی کے ساتھ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہوگی ۔افغان عبوری حکومت کے عہدیداروں کے روئیے اور انداز فکر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں برسوں سے مقیم افغانیوں کی اکثریت کے انداز فکر کا جائزہ لیا جائے تو بدقسمتی سے وہ اپنے میزبان ملک کا ممنون ہونے کے لیے بھی تیار نہیں اگرچہ پاکستان نے اسلامی بھائی چارے اور دینی اخوت کے جذبے کے تحت چار دہائیوں سے زائد عرصے تک افغان پناہ گزینوں کی جس طرح میزبانی کی بلکہ ان کو اپنے شہریوں کے برابر کا درجہ دیا وہ ساری محنت رائیگان جاتی محسوس ہوتی ہے بہرحال یہ اب اس امر کے جائزے کا موقع نہیں کہ ماضی میں کیا کیا غلطیاں ہوئیں اور پاکستان کو ان غلطیوں کا خمیازہ کہاں کہاں اور کیسے کیسے بھگتنا پڑا یہ الگ امر ہے افغان پناہ گزینوں کے انخلاء اب ناگزیر ہو چکا ہے اس منصوبے پر عمل درآمد کے بعد کے حالات بھی اگرچہ سازگار ہونے کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن بہرحال اب اس منصوبے پر عمل درآمد کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی دکھائی نہیں دیتا۔صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ افغان عبوری حکومت افغانستان میں ہنگامی طور پر لاکھوں افراد کو بسانے کا انتظام یقینی بنائے۔ حکومت پاکستان کو جہاں اس ضمن میں صوبائی حکومت کو منوانے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ بالا تعاون ان کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہو وہاں برسوں سے یہاں مقیم افراد کے کاروبار اور طالب علموں کو متاثر ہونے سے بچانے کے لئے قانونی طور پر مقیم ہونے کے خواہشمندوں کو ا نسانی ہمدردی کی بنیادوں پر سہل مواقع کی فراہمی پر توجہ کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  ستم بالائے ستم