ایک اور امتحان

خدا ہی خیر کرے انوری کی طرح بلائوں نے پاکستان بھی دیکھ لیا ہے ملک میں اس وقت دہشت گردی امن و امان اور معاشی مشکلات کی جو صورتحال ہے وہ کیا ہی تشویش ناک اور گھمبیر ہے اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں اس صورتحال سے ہر محب وطن پاکستانی کا مشوش ہونا فطری امر ہے ستم والا ستم یہ کہ یہ پاکستان کی چند ایک مشکلات نہیں بلکہ وطن عزیز بری حکمرانی سے لے کر بدعنوانی اور دیگر مختلف قسم کے گوناگوں مسائل کا شکار ہے دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ملک کو ان حالات سے نکالنے کے لیے جس قیادت اور دانشمندی کی ضرورت ہے اس کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں اتا ایسے میں یہ مشکلات ہی کیا کم تھی کہ ملک میں پانی کی شدید کمی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے پاکستان جیسے زرعی ملک میں اگر فصلوں کو پانی میسر نہ آئے تو پھر خوراک اور میوہ جات کہاں سے پیدا ہوں گی اس سال بھی خشک سالی کے باعث میوے رسیلے اور چھی کوالٹی کے نہ پیدا ہو سکے بارشوں کی کمی کے باعث صرف خوراک ہی متاثر نہیں ہوتی بلکہ اس سے دیگر پیچیدہ اور لاینحل قسم کے مسائل بھی پیش آتے ہیں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ارسا نے پنجاب اور سندھ کو جو ملکی زراعت و پیداوار کے حامل صوبے ہیں کو خبردار کیا ہے کہ موجودہ ربیع کی فصلوں بشمول گندم کی اہم فصل کی باقی ماندہ مدت کے لیے پانی کی35فیصد تک کمی کے لیے خود کو تیار رکھیںپاکستان میں موسم گرم اور سردیوں کے فصلوں کے موسموں کے لیے پانی کی بڑھتی ہوئی قلت گزشتہ کئی سالوں میں خشک دنوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سکڑتے گلیشیرز کی وجہ سے نئی معمول بن گئی ہے عالمی طور پر موسمیاتی حدت میں اضافے سے پاکستان ان چند ممالک میں سر فہرست ہے جسے ماحولیاتی طور پر سنگین اثرات درپیش ہیں اور تشویش ناک حد تک اس میں اضافہ ہورہا ہے یہ صورتحال برقرار ہے اس سال فروری اور فروری تک موسم کی صورتحال خشکی کی رہی فروری اور مارچ میں کہیں جا کر تھوڑی بہت بارشیں اور برفباری ہوئی اس وقت تک فصلوں کو پانی نہ ملنے کے باعث کافی نقصان کا سامنا ہوا اور زمینداروں کی تشویش بڑھتی گئی بہرحال یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ بارشیں شروع ہو گئیں بارشیں نہ ہوتیں تو اس وقت تک درجہ حرارت نہ جانے کتنا بڑھ چکا ہوتا خشک سالی ہیٹ ویوز اور غیر معمولی بے موسم اور بے وقت کی غیر معمولی بارشیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ہم پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کے بعد سامنے آنے والے حالات کا ابھی سے شکار ہیں درجہ بندی کے طور پر موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ خطرات کا سامنا کرنے والے دس ممالک میں پاکستان کا شمار ہوتا ہے اس صورتحال کے باعث ہماری روزمرہ کی زندگی سے لے کر معاش خوراک اور معیشت پر اس کے مہنگے اور تباہ کن اثرات مرتب ہونا وہ بڑا چیلنج ہے جس کا مقابلہ کرنے کی ہمارے نظام اور بنیادی اساس میں گنجائش ہی نہیں دنیا کے دیگر ممالک میں کسی نہ کسی حد تک اس صورتحال سے نمٹنے کی سکت نظر آتی ہے جبکہ ہمارے ملک میں قدرتی حالات تو اپنی جگہ خود اپنے ہاتھوں ہمارے ملک میں جس طرح کی صورتحال اور انتشار کی کیفیت جاری ہے اس سے کیا نام دیا جائے قدرت نے بھی ہم انسانوں کے لیے ایک اصول وضع کر رکھا ہے کہ آسمانوں زمین اور کل کائنات کا مالک اس وقت تک انسانوں کی حالت میں تبدیلی کا فیصلہ نہیں کرتا جب تک انسان خود اپنے آپ اور اپنے حالات میں تبدیلی کی ہر ممکن جدوجہد اور محنت نہیں کرتا حالات کو آخر کوئی کتنا روئے ہم بحیثیت قوم کہاں کھڑے ہیں ہم سے زیادہ کسے معلوم لیکن پھر بھی ہم اسی ذات حقیقی سے مایوس اس لیے نہیں کہ وہ اپنے کمزور انسانوں پر رحم ضرور کرتا ہے یہی سوچ کر مجھے امید کی کرن نظر آتی ہے کہ ہم زمین والے جو سوچتے ہیں ضروری نہیں کہ آسمان والا بھی وہی فیصلہ کرے ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جو ہمارا طرز عمل اور اعمال ہیں اس کے مطابق فیصلوں کا ظہور پذیر ہونا بھی انہونی بات نہیں پاکستان میں موسمیاتی چیلنج سے نمٹنے کی ضرورت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب پاکستان جیسا ملک ایک ہی وقت میں متعدد تباہ کن واقعات کا شکار ہو مثال کے طور پر 2022 میں ہم سب سے پہلے موسمیاتی حدت اور خشک سالی کا شکار ہوئے اور پھر اچانک سیلاب نے 33 ملین لوگوں کو بھی متاثراور بے گھر کر دیا اس کے بعد لینڈ سلائیڈنگ نے خیبر پختونخوا اور دیگر شمالی علاقوں کا بنیادی اساس تہ و بالا کر کے رکھ دیا متاثر ہونے والوں میں سے دسیوں ہزار کو دوبارہ آباد اور ان کے کاروبار اور روزگار کی بحالی میں پوری طرح ہنوز کامیابی نہیں ہو سکی ہے یہ کہ ایسے حالات کا ملک کو سامنا ہے کہ بہتری کی توقع کم اور خدانخواستہ ابتری کا خدشہ زیادہ ہے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پالیسی ساز موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو برداشت کرنے میں لوگوں اور معیشت کی مدد کرنے کے لیے خاطرخواہ سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی ان کو اس کی منصوبہ بندی اور حالات سے نمٹنے کے تقاضوں کا احساس و ادراک نظر آتا ہے حالانکہ خطرہ بہت زیادہ دکھائی دے رہا ہے خطرے کی گھنٹیاں مسلسل بج رہی ہیں لیکن اگر اس کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی تو وہ ہمارے حکمران پالیسی ساز اور منصوبہ ساز ہیں آب و ہوا کی آفات کسی ملک کے وسائل کو بری طرح کھینچ لیتی ہیں قدرتی حالات ان ممالک کو تباہ کر سکتے ہیں جو ان کے لیے تیار نہیں ہوتے خشک سالی کے باوجود اندازہ ہے کہ کسی نہ کسی حد تک اہم خوراک اس درجے کے نقصان سے محفوظ رہا ہے لیکن اس طرح بال بال بچنے کا اتفاق ہر بار پیش آنا ضروری نہیں اس بات کی کیا ضمانت ہوگی کہ اس سال تو ہم بال بال بچ گئے کیا اگلے سال بھی ہم اسی طرح کی خوش قسمتی سے دوچار ہوں گے اور ایسا کب تک ہوتا رہے گا شاید ایک نہ ایک دن تو خدا نخواستہ وہ محاورہ درست ہی ثابت ہوگا کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔

مزید پڑھیں:  ہیں کوا کب کچھ نظر آتے ہیں کچھ