میں پشاور ہوں مجھے ایسے نہ دیکھ

آپ نے یاددلایا تو مجھے آیاد آیا جی ہاں کبھی کبھی کوئی نہ کوئی مہربان یادوں کی گٹھڑی کھولنے پر مجبور کر دیتا ہے یہی گزشتہ جمعتہ المبارک کو ہمارے ساتھ ہوا ‘ ہمارے ایک کرم فرما روخان یوسفزئی نے ہمیں فون کیا اور ایک ٹی وی چینل کے پشتو نشریات کے لئے ”پشاور میں افطار اور سحری کی روایات” کے موضوع پر ہماری یادداشت کو کنگال کر اپنے پروگرام کا حصہ بنایا ‘ موضوع خاصا دلچسپ تھا اور اس بہانے ہمیں بھی اپنے بچپن اور لڑکپن کے دور میں جھانکنے کا موقع ملا ‘ باتیں بقول شاعر نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں سے بھی آگے کی ہیں یعنی ساٹھ ستر سال پہلے کی یادیں تو جیسے ذہن کے پردے پر کسی فلم کی طرح چلنے لگیں اورآپس میں گڈ مڈ ہوتی رہیں بچپن کی یادیں ویسے بھی اچھی ہوتی ہیں اور بڑے اپنے بچوں کو دیکھ کر جو ایک جملہ ادا کرتے ہیں کہ ”بچے بادشاہ ہوتے ہیں” تو آج ہمیں بھی اپنے بچوں ‘ پوتے پوتوں کو دیکھ کر اور ان کی ”بے غمی”کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ واقعی ہم بھی اپنے بچپن میں ” شہنشاہوں”کی مانند ہوتے تھے نہ کسی چیز کی پرواہ ‘ نہ فکر کہ ہماری مانگیں پوری کرنے کے لئے ہمارے والدین کو کیا کیاپاپڑ بیلنے پڑتے تھے اس سے بھلا ہمیں کیا غرض ‘ خیر یہ تو زندگی کا ایک سرکل ہے جو چلتا رہتا ہے ‘ آج کے بچے آنے والے کل کو ہماری طرح اپنی آنے والی نسل کے اسی طرح نخرے اٹھاتے رہیں گے جیسا کہ ہم آج اور ہمارے بزرگ گزشتہ کل ہماری فکر کرتے تھے ‘ یہ سرکل یونہی چلتا رہے گا کہ یہی زندگی ہے ‘ اور بالاخر یہ زندگی ایک نہ ایک روز فنا ہو جائے گی ‘ فنا اور بقاء کے اسی کھیل کو زندگی کہا گیا ہے جس میں ہر شخص اپنا اپنا حصہ ڈال کر بقول شیکسپیئر دنیا کے سٹیج سے اتر جاتا ہے یارطرحدار پروفیسر ڈاکٹر نذیر تبسم نے کہا تھا کہ
میں پشاور ہوں مجھے ایسے نہ دیکھ
تو مرے مٹتے ہوئے آثار سوچ
سو آج سوچوں کی اس زنبیل کو کھول کراس میں سے ایسی یادیں نکالنے کا موقع ملا وہ بھی ایک محدود ائرے کے اندر ‘ یعنی پشاور میں افطاری اور سحری کی روایات تاہم ان روایات کے ساتھ اور بھی کئی عوامل جڑے ہوئے ہیں جن سے جان چھڑانے کی کوشش چاہنے کے باوجودکامیاب نہیں ہو سکتی ‘ کیونکہ جب بات ”روایات” کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے تو پھر سلسلہ طول ہی پکڑتا چلا جاتا ہے اور خوشگوار یادوں کا سلسلہ خود ہمارے اپنے ہی ایک شعر کی صورت سامنے آکر کھڑا ہوجاتا ہے یعنی
وہی بچپن کے لمحے لوٹ آئیں
ہمارے ہاتھ میں پھر جْھنجْھنے ہوں
اگرچہ باتیں اس دور کی نہیں جب جْھنجْھنے سے کھیلا کرتے تھے تاہم اسے ایک استعارے کے طور پر برتا جا سکتا ہے بہرحال ماضی کو چھیڑنا تو گویا بقول مرزا غالب چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد والی ہے ‘ کہ بچپن کی یادیں سنہری ہی ہوتی ہیں اور ہمیں یاد ہے کہ اس دور میں پشاور کامعاشرہ ایک سادہ معاشرہ ہوتا تھا ‘ آج کی طرح گنجلک اور پیچیدہ مگر سائنسی ایجادات کی طفیل آسانیاں تو نہیں ہوا کرتی تھیں مگر خود غرضی نفسا نفسی کا عالم بھی نہیں تھا ‘ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ”جڑے” ہوتے اور ایک دوسرے پر محبتیں نچھاور کرتے ‘ تب ‘ ہمیں یاد ہے پورے پشاور میں ریفریجریٹر صرف تین ہوا کرتے تھے ‘ جن میں سے ایک کچہری روڈ پر مرحوم ڈاکٹر عبدالطیف کے مطب میں ہوتا تھا جس میں بعض اہم انجکشن اور دوائیں ہوتی تھیں ‘ اسی طرح دیگر دو میں سے ایک پشاور صدر اور دوسرا گھنٹہ گھر کے پاس کیمسٹوں کی دکانوں میں ہوتے تھے جن میں حساس نوعیت کی دوائیں اور انجکشن رکھے ہوتے جبکہ لوگ پانی ٹھنڈا کرنے کے لئے اور افطاری کے وقت شربت بنا کر اس میں برف ڈالا کرتے ‘ شہر میں برف بنانے کی دو تین فیکٹریاں ہوتیں جن کے آئوٹ لیٹ گھنٹہ گھر اور صدر کے علاقوں میں ہوتے ‘ افطاری کے وقت ٹھنڈے پانی اور شربت کے لئے ان دکانوں سے برف حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا ‘ ان دکانوں پراتنی رش ہوتی کہ آسانی سے برف کا حصول گویا معرکہ سر کرنا ہوتا جبکہ غریب لوگ شہر اور صدر میں مختلف علاقوں میں قدیم دور کے نیک لوگوں کی جانب سے ٹھینڈے پانی کے کنویں کھدوا کر اور ان کا پانی وقف کرکے وہ لوگ جانے کب منوں مٹی تلے یا پھر چتا کی آگ کی نذر ہو کر رخصت ہوچکے تھے کیونکہ کئی کنویں مسلمانوں اور کئی ہندوئوں نے کھدوا کر وقف کر رکھے تھے ‘ جہاں سے لوگ گرمی کے دنوں میں ٹھنڈا میٹھا پانی حاصل کرتے اور کنویں وقف کرنے والوں کے لئے دعائیں دل سے نکلتی تھیں کہ انہوں نے زندگی کی بے ثباتی کو دیکھ کر خدمت خلق کی راہ اپنائی اور احمد فراز کو کہنا پڑا
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
بات طول پکڑتی جارہی ہے واپس موضوع کی طرف آتے ہیں ہمیں یاد ہے کہ ان دنوں لائوڈ سپیکر کا استعمال بھی ایسا نہ تھامساجد میں جہاںتروایح کا اہتمام ہوتا ختم قرآن کے موقع پر بازار سے کرائے پر لائوڈ سپیکر لا کر علمائے کرام کی خدمات حاصل کرکے سیرت پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں تقاریر محلے بھر کو سنوائی جاتیں آج کی طرح ہر مسجد کا اپنا سائونڈ سسٹم کا تو تصور ہی نہیں تھا ‘ ایسی صورت میں محلے کے مساجد کے آگے بے اذان مغرب سے پہلے ہی آکر جمع ہو جاتے اور جیسے ہی موذن اللہ اکبر کی صدا بلند کرتا تو بچے آسمان سر پر اٹھا کر اپنے گھروں کو دوڑ جاتے اور بتا دیتے کہ اذان ہو گئی ہے یعنی روزہ افطار کرلیں ‘ اسی طرح رات کو سحری کے لئے جگانے والوں کی ٹولیاں تھیں جو ڈھولک پر نعتیں پڑھتے ہوئے گلیوں میں لوگوں کو جگانے کی ذمہ داری نبھاتے ‘ جس کا ”عوضانہ یا شکرایہ” عید کے دن لوگ ان کو چند روپوں کی صورت ادا کرکے احسان مندی کااظہار کرتے اس زمانے میں نماز تراویح کے بعد اکثر علاقوں میں من چلے سحری تک ٹینس بال کرکٹ کھیلنے کا اہتمام کرتے یہ کرکٹ بھی عشاء کے بعد سحری کے اوقات تک کھیلی جاتی ‘ اسی طرح پشاور میں کئی مقامات پر کیرم بورڈ کے مقابلوں کا اہتمام ہوتا دن کے اوقات میں بھی یہ کھیل جاری رہتا اور لوگ” روزہ مشغول” کرنے کے نام پر دوپہر کی گرمیوں سے بچنے کا اہتمام اسی کھیل کے طفیل کرتے البتہ رات میں باقاعدہ کیرم ٹورنامنٹ کاانعقاد ہوتا جس میں شہر کے نامی گرامی کھلاڑی مدمقابل ہوتے ‘ اس ضمن میں گھنٹہ گھر کے مقام پر ایک بالاخانے میں اس ٹورنامنٹ کا آغاز پہلے روزے سے کیا جاتا اور چاند رات کو آخری میچ میں ونر اور رنراپ کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کئے جاتے ‘ رمضان اور عید کا چاند دیکھنے کے لئے قدیم دور سے ہی مسجد قاسم علی خان میں مفتی سرحد مولانا عبدالرحیم پوپلزئی کی سربراہی میں علماء اور مشائخ کے اجلاس منعقد ہوتے جن کے فتوئوں پر نہ صرف پشاور بلکہ صوبہ سرحد کے لوگ روزہ رکھنے او رعید الفطر کابندوبست کرتے ‘ اس دور میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا کوئی وجود نہیں تھا ‘ آج مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی قیادت میں جو کمیٹی موجود ہے یہ اسی قدیم کمیٹی کی وارث ہے مگر اب اسے نجی کمیٹی کے نام سے پکارا جاتا ہے ‘ عید کے موقع پر چوک یادگار اور شاہی باغ میں میلے منعقد ہوتے اسی طرح نذر باغ(قلعہ بالاحصار کے نیچے’چمکنی اور اکبر پورہ میں اخوندپنجوبابا کے مقام پر بھی میلوں کا اہتمام کیا جاتا ان سب کی تفصیل کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں کہ اب تو روایات بھی بدل گئی ہیں اور زمانہ بھی ‘ کہ بقول سجاد بابر مرحوم
کرن بھی اترے تو آہٹ سنائی دیتی ہے
میں کیا کروں مجھے خوشبو دکھائی دیتی ہے

مزید پڑھیں:  کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے