کیس ٹرانسفر کرنے کی قانون

اس طرح کیس ٹرانسفر کرنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں،اسلام آبادہائیکورٹ

ویب ڈیسک: ڈپٹی رجسٹرار کے خلاف از خود توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس میں کہا ہے کہ توہین عدالت وہی جج سنتا ہے جسکے آرڈر کیخلاف ورزی ہوئی ہو، جج کی مرضی کے بغیر کیس ٹرانسفر کرنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں، جبکہ اس طرح کیس ٹرانسفر کرنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی، اس دوران پی ٹی آئی وکلاء اور ایڈووکیٹ جنرل عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے اسفسار کیا کہ کیا اس درخواست کو نمبر لگ گیا ہے؟
ایڈووکیٹ جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کل عدالت نے دل کی باتیں کیں، آج مجھے موقع دیں میں بھی دل کی باتیں کر لوں، میرا ایک ہی سوال ہے کہ کیا مشعال یوسفزئی بانی پی ٹی آئی کی وکیل ہیں یا نہیں، اسی سوال سے یہ ساری صورتحال پیدا ہوئی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ آیا ایک بنچ سے کیس اس طرح منتقل ہو سکتا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کل آپ نے کہا کہ میں انصاف نہیں دے سکتا تو مجھے بیٹھنا نہیں چاہیے، مجھے بھی آج دل کی بات کرنے دیں، نیاز اللہ نیازی خود عدالت میں موجود تھے انہیں خود عدالت کو بتانا چاہیے تھا، نیاز اللہ نیازی نے خود کہا کہ مشعال یوسفزئی ہماری وکیل نہیں، عدالت سے استدعا ہے نیازی صاحب کو عدالت میں بلا کر پوچھ لیں۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات اتنی سادہ ہی ہے تو کمیشن کو اسی لیے تو بھیجا تھا، بانی پی ٹی آئی نے کہہ دینا تھا وہ میری وکیل نہیں، مشعال گئی لیکن آپ نے ملنے نہیں دیا، آپ روک روک کر یہاں تک لے آئے کہ لاء کلرک کو ڈیڑھ گھنٹہ بٹھائے رکھا، تین سیکنڈ کی بات تھی آپ نے لا کلرک کو تین گھنٹے بٹھائے رکھا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایک وکیل کہتا ہے میں وکیل ہوں عدالت اس کی بات رد نہیں کر سکتی، جب دوسری طرف سے آتا ہے کہ وکیل نہیں تو پھر عدالت ملزم سے پوچھے گی، آپ مجھے بتائیں بطور جج میں کیا کرتا؟ میں یسی وجہ سے توہین عدالت چلا رہا ہوں تاکہ ہم سیکھیں۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اس کیس میں 37 کیسز زیر التواء ہیں جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دس ہزار کیس بھی ہوں، اس متعلقہ عدالت کو ہی کیس منتقلی یا لارجر بنچ کی استدعا کی جاتی ہے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ لارجر بنچ کی درخواست ہماری نہیں سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی تھی، جس پر عدالت نے بنچ تبدیلی سے متعلق شق پڑھنے کی ہدایت کی۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا کہ کیا تمام فریقین کو نوٹس کرکے سنا گیا؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ نوٹس نہیں کیا گیا، کیس منتقلی کی درخواست آئی تھی۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جس قانونی نکتے کے تحت درخواست آئی آرڈر خود کہتا ہے کہ درخواست اس کے تحت نہیں دی جا سکتی، آرڈر کے مطابق درخواست گزار نے اپنی استدعا پر زور نہیں دیا لیکن اس کے باوجود استدعا مان بھی لی گئی۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیئے کہ جج کا احتساب عوام کرتی ہے، جج کا احتساب کوئی اور نہیں کرتا ہے، اس کارروائی کا مقصد لوگوں کو آگاہی دینا ہے، اس کارروائی کا مطلب ہائی کورٹ کو مزید شرمندہ کرنا نہیں۔
عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ توہین عدالت وہی جج سنتا ہے جسکے آرڈر کیخلاف ورزی ہوئی ہو، میں اپنے یا اپنے کولیگز کے لیے کوئی ناخوش گوار بات نہیں چھوڑنا چاہتا، کیا آپ اس عدالت کے سامنے لگی توہین عدالت درخواست پر دلائل دیں گے؟ کیا وہ بنچ توہین عدالت کیس سنے گا جس نے آرڈر ہی نہیں کیا، جس کی حکم عدولی ہوئی؟
مشعال یوسفزئی نے کہا کہ میری توہین عدالت کیس میں 6 سے 7 سماعتیں ہوئیں، ہر سماعت پر مختلف مؤقف لیا گیا، بانی پی ٹی آئی کے وکلاء میرے ساتھ کھڑے ہیں، ان وکلاء کو بانی پی ٹی آئی نے ہدایت کی ہے کہ میرے کیس میں پیش ہوں۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارس دیئے کہ میرے لیے سب سے اہم عدالت کی توقیر ہے اس پر مشعال یوسفزئی نے بتایا کہ اسی عدالت کے باہر مجھے کہا گیا تھا کہ آپ توہین عدالت کیس واپس لیں، یہ بھی کہا گیا کہ کیس میں کچھ نہیں ہوگا، آپ دیوار سے سر مار رہی ہیں۔
عدالت ریمارس دیئے کہ آج صرف کیس منتقلی کا معاملہ عدالت کے سامنے ہے، مجھے اس ایشو پر ایک فائنل ججمنٹ لکھنی ہے، میں لکھوں گا کہ اس طرح کیس ٹرانسفر کرنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں، اگر یہ کام ہائی کورٹ جج نے نہ کیا ہوتا تو یہ کریمنل توہین عدالت ہوتی۔ آپ سب کو بلانے کا مقصد ہےکہ ہماری معاونت کریں، میں ریسرچ کرنے کے لیے نہیں بیٹھ سکتا۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو مشکل پوزیشن میں نہیں رکھنا چاہتے ، ایڈووکیٹ جنرل صاحب آپ نے عدالتی سوالات پر عدالت کو مطمئن کرنا ہے۔
سابق ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے روسٹرم پر آکر کہا کہ میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، میرا بنیادی سوال یہ ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس ڈپٹی رجسٹرار کو ڈیفنڈ کر سکتا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل وفاق کا نمائندہ ہے، وہ ڈپٹی رجسٹرار کی نمائندگی نہیں کر سکتا، پراسیکیوٹر جنرل آفس ہی ڈپٹی رجسٹرار کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل ایاز شوکت نے کہا کہ جہانگیر جدون صاحب کا شکریہ انہوں نے مجھے اس معاملے سے نکالنے میں مدد کی، مجھے اس معاملے سے نکال ہی دیں تو بہتر ہوگا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اب سوال تو یہ بھی ہے کہ ان کیسز میں ریاست کہاں کھڑی ہے؟ سوال یہ ہے کہ لارجر بنچ کی تشکیل قانونی ہے یا نہیں؟ لارجر بنچ کی عدالتی کارروائی قانونی ہے یا نہیں؟ آج لارجر بنچ میں سماعت ہوگی تو دیکھیں کہ کیا وہ قانونی کارروائی ہے یا نہیں۔
شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے لارجر بنچ کی تشکیل سے متعلق آرڈر پر توجہ لاتے ہوئے کہا کہ آرڈر میں لکھا ہے آفس اعتراضات کو دور کر دیا گیا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ اچھا ایسا لکھا ہے، لیکن اعتراضات دور کرنے کی وجہ کوئی نہیں بتائی گئی۔
عدالت نے ہدایت کی کہ ڈپٹی رجسٹرار آئندہ سماعت پر ہائیکورٹ رولز لے کر آئیں جس کے مطابق چیف جسٹس اعتراض دور کیے بغیر درخواست پر آرڈر کر سکتا ہے، وہ رولز بھی لائیں کہ چیف جسٹس عدالت میں زیر سماعت کیس کو واپس لے سکتے ہیں۔
بعدا زاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔

مزید پڑھیں:  باجوڑ میں خوفناک ٹریفک حادثہ میں 9 افراد زخمی