غربت غریب اور پاکستان

میں گھر کا بچا ہوا کھانا ڈسپوزیبل لنچ باکس میں ڈال کر مین گیٹ کے ساتھ ایک مناسب جگہ پر رکھ دیتا ہوں ۔ یقین کریں کہ کچھ ہی دیر میں کوئی ضرورت مند اسے اٹھا لیتا ہے ۔ میرا دل بھی مطمئن ہو جاتا ہے کہ چلو کھانا ضائع نہیں ہوا اور کسی کا پیٹ تو بھر گیا ۔ جان من نے چاول سے بھرا ایک شاپر میرے حوالے کرتے ہوئے بتایا کہ کل کام والی خالہ نے کچن کی صفائی کی تھی دورانِ صفائی اس نے ریفریجریٹر بند کر دیا تھا ۔ کام ختم کرنے کے بعد ریفریجریٹر دوبارہ آن کرنا بھول گئی ۔ میں نے بھی خیال نہیں کیا ۔ ریفریجریٹر کھولا تو اسے بند پایا ۔ باقی سب تو ٹھیک تھا لیکن ٹرے میں رکھے ہوئے چاول خراب ہو گئے ہیں ۔ ان سے عجیب قسم کی بدبو آ رہی ہے ۔ یہ چاول کسی کے کھانے کے قابل نہیں ہیں ۔ یہ شاپر گاربیج ڈرم میں ڈال آئو ۔ میں نے ان سے شاپر لیا اور گاربیج ڈرم میں ڈال دیا ۔ واپس آ کر اپنے کام کاج میں مصروف ہو گیا ۔ چند لمحوں بعد جان من نے پھر کچن سے آواز دی ۔ میرے پہنچنے پر بتایا کہ گھر میں اور کوڑا کرکٹ جمع ہو گیا ہے ۔ اسے بھی گاربیج ڈرم میں ڈال آئو تاکہ عملہ صفائی اسے وقت پر ٹھکانے لگا دے ۔ اب جب میں یہ کوڑا کرکٹ لے کر گاربیج ڈرم کے قریب پہنچا تو ایک دل ہلا دینے والا منظر دیکھا ۔ ٹوٹے چپل اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایک نوجوان گاربیج ڈرم پر جھکا ہوا تھا ۔ اس کا آدھے سے زائد جسم ڈرم کے اندر تھا ۔ پائوں زمین سے اوپر فضا میں معلق تھے ۔ میں نے قریب جا کر دیکھا تو وہ میرے تلف کیے ہوئے چاول ڈرم میں پڑے شاپر سے نکال کر کھا رہا تھا ۔ میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہا تھا ۔ مجھے افسوس بھی ہوا اور بے انتہا غصہ بھی آیا ۔ میں نے اسے آواز دی لیکن وہ ٹس سے مس تک نہ ہوا ۔ آخر میں نے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا ۔ اس کا منہ چاولوں سے بھرا ہوا تھا ۔ چہرہ اور داڑھی کے بال پر بھی چاول اٹکے ہوئے تھے ۔ میں نے اسے چاول کھانے سے منع کیا ۔ جواب میں وہ صرف بڑبڑایا ۔ اس کی بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی ۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ چاول خراب ہیں ۔ کھانے کے قابل نہیں ہیں اور پھر تم گندگی کے ڈرم سے اٹھا کر کھا رہے ہو ، بیمار پڑ جائو گے ۔ میرے ساتھ گھر چلو میں تمہیں صاف کھانا کھلاتا ہوں ۔ وہ غوں غوں کرتا رہا ۔ میں اسے زبردستی گھر لے آیا ۔ گیراج میں لگے بمبے پر اس کا ہاتھ منہ دھلایا ۔ برآمدے میں آرام سے بٹھایا ۔ گھر میں موجود صاف کھانا کھلایا ۔ ساتھ ساتھ چائے کا ایک گرم کپ پینے کو دیا ۔ توانائی بحال ہونے پر اس نے باتیں کرنا شروع کیں ۔ میرے دوستانہ روئیے کی بدولت اس نے کھل کر حال دل بیان کیا ۔ پوچھنے پر اس نے اپنا نام امجد علی بتایا ۔ قریبی گائوں میں رہنے والا یہ نوجوان انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ۔ دیہاڑی کبھی ملتی ہے اور کبھی نہیں ۔ اس لیے مختلف علاقوں سے کاٹھ کباڑ اکٹھا کر کے پیٹ بھرتا تھا ۔ شکل وصورت سے تو کافی اچھا تھا لیکِن غربت بے روزگاری اور معاشی حالات نے ظاہری حلیہ تبدیل کر دیا تھا ۔ رخصت کرتے وقت کچھ اس کی جیب میں بھی ڈال دیا ۔ نوجوان کے حالات سن کر دل بہت اداس ہوا ۔ طبیعت کافی دیر بعد تک خراب رہی ۔ بڑی مشکل سے اپنے آپ کو اس صورتحال سے نکالا ۔ یہ کسی ایک امجد علی کی کہانی نہیں ہے ۔ اس وقت مملکت خداداد پاکستان میں کروڑوں امجد علی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ صرف رواں مالی سال میں تقریبا سوا کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں ۔2022میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے پاکستانی ساری آبادی کا 34.2 فیصد تھے ۔ اب یہ تعداد 39.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ غربت کی لکیر مال و زر کی حد ہے ۔ اس لکیر پر کھڑا ہونے والا شخص غریب شمار ہوتا ہے ۔ عالمی بینک اور اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2.15 امریکی ڈالر تقریبا850روپے پاکستانی سے کم کمانے والا غریب ترین انسان شمار ہوتا ہے ۔ ایسے لوگ دو وقت کھانے کی مالی استطاعت بھی نہیں رکھتے ۔ نتیجتاً یہ لوگ صحت تعلیم جیسی بنیادی سہولیات سمیت اکثر محفوظ پناہ گاہ سے بھی محروم ہوتے ہیں ۔2.15ڈالر والا فارمولہ سروائیول یعنی گزارے کے تناظر میں بنایا گیا ہے ۔ ریاست میں موجود افراد کے پاس بنیادی ضروریات یعنی غذا اور خوراک صاف پانی کپڑے اور چار دیواری اور بنیادی صحت کے مالی وسائل موجود نہ ہوں تو ان کا شمار غریب طبقے میں ہوتا ہے ۔ دنیا میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم غربت کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ گلوبل ویلتھ رپورٹ کے مطابق 85 فیصد دولت صرف10فیصد افراد کے ہاتھوں میں ہے ۔ عالمی آبادی کا کثیر حصہ کھلے آسمان تلے ہی آنکھ کھولتا ہے اور بھوکے پیٹ مر جاتا ہے ۔ 1990تک 1.9ارب افراد انتہائی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے ۔ 117ممالک کی لسٹ میں پاکستان کا ہنگر انڈکس 94Hunger Index ہے ۔ 82 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں ۔37 فیصد آبادی خوراک کے عدم تحفظ کی شکار ہے ۔ صرف35فیصد آبادی کو صاف پینے کا پانی میسر ہے ۔آبادی کا بے ہنگم پھیلائو قدرتی وسائل پر بوجھ بنتا جا رہا ہے ۔ رب العزت انسان سے مایوس نہیں ہوا ۔ اس لیے روزانہ ہزاروں بچے اس دنیا میں آ رہے ہیں مسئلہ پلاننگ کا ہے ۔ وسائل وافر مقدار میں ہونے کے باوجود ہم ان کو مفید مقاصد میں استعمال میں نہیں لاتے ۔4کروڑ20لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں ۔1کروڑ20لاکھ بچے بنیادی ویکسین سے محروم ہیں ۔ اسی طرح سوا کروڑ گھروں کی کمی ہے ۔ امیر امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے ۔ پاکستان میں غربت کی سب سے بڑی وجہ غیر سیاسی صورتحال ہے ۔ہمارا طرز حکومت انتہائی کمزور ہے ۔ ہر آنے والی سیاسی حکومت افسر شاہی پر انحصار کرتی ہے ۔ سیاست دان بہت کم سیاسی بصیرت رکھتے ہیں ۔ انہیں امور حکومت چلانا نہیں آتا ۔ اس لیے وہ افسر شاہی کے محتاج ہوتے ہیں ۔ افسر شاہی کے مزاج شاہانہ ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں ۔ ریاست سے زیادہ وہ اپنی ذات اور برادری سے مخلص ہوتے ہیں ۔ اپنے ذاتی مفادات اور آسائشوں کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔ ملک و ملت اور جنتا کی ان کے ہاں حیثیت ثانوی ہوتی ہے ۔ افسر شاہی انکم ٹیکس وصول کرنے کی مجاز ہوتی ہے ۔ افسوس کہ صرف 35فیصد لوگ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ اس لیے مہنگائی بے روزگاری اور غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ ہماری اشرافیہ اور افسر شاہی ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ انسانوں کی تعلیم و تربیت اور صحت پر بہترین سرمایہ کاری کر کے ان کا معیارِ زندگی بلند نہیں ہونے دیتے ایک پڑھا لکھا خوشحال نوجوان ان کے اقتدار اور ریاستی طاقت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ تعلیم عام کریں خدارا ملکی وسائل کو بروئے کار لا کر ملک سے غربت بھوک اور بے روزگاری ختم کریں ۔

مزید پڑھیں:  امریکہ کی وعدہ خلافی