مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے درست کہا ہے کہ پسندی محض ایک نظریاتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ مختلف سماجی، تاریخی، اقتصادی اور نفسیاتی عوامل کا نتیجہ ہے۔ اس کے تدارک کے لئے محض سیکورٹی اقدامات کافی نہیں بلکہ ایک طویل المدتی اور جامع پالیسی درکار ہے جو تمام متعلقہ اداروں اور اسٹیک ہولڈرز کی ہم آہنگی کیساتھ تشکیل دی جائے تاکہ نوجوان نسل کو انتہاء پسند تنظیموں کے اثر و رسوخ سے محفوظ رکھا جا سکے۔اگرچہ دہشت گردی بدامنی اور قانون سے کھلواڑ جیسے عوامل کی کوئی واحد توجیہ اور وجوہات کا تعین آسان کام نہیں لیکن بہرحال تجربے اور مشاہدے سے یہ بات ضرور سامنے آتی ہے کہ جن معاشرے میں غربت ‘بے روزگاری ‘نا انصافی اور جہالت کی شرح زیادہ ہو وہاں پر نوجوانوں کا رجحان صحت مندانہ ہونے کی بجائے غیر صحت مند مشاغل اور امور کی طرف ان کا رجحان زیادہ ہوتا ہے اس تناظر میں خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو حالات کی جو تصویر بنتی نظر آتی ہے اس سے محولہ عوامل کے اثر انداز ہونے کی تصدیق ہوتی ہے خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے نوجوانوں کی محرومیاں اور اس کا احساس کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ رکھا گیا رویہ اور سلوک نوجوانوں کی بڑی تعداد کے ذہنوں میں جو فتور بھرنے کا باعث بن رہا ہے اس کے اعتراف میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے یہاں کے نوجوانوں کو اگر بڑے شہروں کے نوجوانوں کی طرح تعلیم و روزگار اور کاروبار کے مواقع کی فراہمی کی ذمہ داری نبھائی جائے تو100فیصد نہیں تونوجوانوں کی غالب ترین اکثریت خواہ مخواہ جان جوکھوں میں ڈالنے کا راستہ کبھی بھی اختیار نہیں کرے گی بلکہ سنہرے مستقبل کی منصوبہ بندی کے ساتھ مثبت رجحانات اپنائے گی اس وقت خیبر پختون خوااور بلوچستان میں متاثرہ علاقوں میں شہری سہولیات علاج معالجہ تعلیم و کاروبار اور روزگار کے مواقع کی جس طرح کمی احساس محرومی کا باعث ثابت ہو رہی ہے اس پر توجہ دی جائے تو وہاں محرومیوں کی شکایت کر کے گمراہ عناصر کے پروپیگنڈے کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں کمی اور مثبت رجحان رکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور ماحول میں شدت پسندی کے جذبات کی بجائے قانون کہ عملداری تسلیم کرنے کا رجحان خود بخود بڑھ جائے گا حکومت کو ان خطوط پر بھی کام کر کے نتائج کا جائزہ لینا چاہیے۔
