نقل مافیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرتے ہوئے امریکہ میں سکولوں کے نظام کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے پاکستان میں صورتحال اس سے کہیں زیادہ ابتر ہے بہرحال صدر امریکہ کا کہنا ہے کہ امریکہ میں سکولوں کا نظام انتہائی گر چکا ہے سکولوں کے طلبہ کو بنیادی ریاضی تک نہیں آتی محکمہ تعلیم کے پاس بڑی عمارتیں ہیں مگر تعلیم نہیں جب امریکہ میں اس طرح کی صورتحال ہو تو پاکستان میں محکمہ تعلیم اور سکولوںمیں معیار تعلیم کا کیا عالم ہو گا اس کا اندازہ کرنے کی بھی اس لیے ضرورت نہیں کہ ہر گھر سے ایک نہ ایک بچہ تعلیم حاصل کرتا ہے پاکستان میں سرکاری سکولوں کی حالت زار کی اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ خود محکمہ تعلیم سے وابستہ افراد یہاں تک کہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے اپنے بچے بھی سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نجی تعلیمی ادارے اداروں کا قیام بہت بڑا منفعت بخش کاروباری شعبہ بن چکا ہے جسے ان اداروں کو اگر ٹکسال سے تشبیہ دی جائے تو بھی غلط نہ ہوگا اور نجی تعلیمی اداروں کے مالکان جس طرح ایجوکیشن مافیا بن چکے ہیں وہ بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کو اس سے کوئی غرض نہیں یہاں خالی نقل کی روک تھام کے لیے بھی کمشنر پشاور کو اجلاس منعقد کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور اور طالب علم کے ہال میں داخلے کے وقت کیا لانا ہے اور کیا نہیں لانا اس کا بھی تعین انتظامیہ کرنے پر مجبور ہے اس حوالے سے انتظامیہ کو کنٹرول روم قائم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ امتحانی ہالوں میں خدمات انجام دینے والے ممتحنین اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہر بار ناکام رہتے ہیں نجی تعلیمی اداروں کے ہالز میں خاص طور پر بھگت ملی بھگت سے نقل کا بازار گرم ہوتا ہے اور امتحان میں ناجائز ذرائع کا کھلے عام استعمال معمول بن چکا ہے انتظامی اقدامات قابل تحسین ضرور ہیں لیکن یہ بنیادی کام محکمہ تعلیم اور اساتذہ کرام کا ہے جو اہلیت کے معیار پر پورے اترنے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو انتظامیہ کو اتنا کشت اٹھانے کی حاجت ہی نہ رہے۔

مزید پڑھیں:  ۔۔۔۔۔بھارت کی بو کھلاہٹ۔۔۔