خیبر پختونخوا کے سکولوں اور کالجوں میں قرآن عظیم اور عربی زبان کو نصاب تعلیم کا لازمی حصہ بنانے کا فیصلہ نہایت مبارک اور صوبے میں اسلامی معاشرے کے قیام اسلامی معاشرتی اقدار کو سمجھنے اور فروغ دینے کے حوالے سے اہم قدم ثابت ہوگا نوجوان نسل کی کردار سازی اور ان کو اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے پر عملی طور پر تیار کرنے پر جب تک سرکاری نصابی اور معاشرتی طور پر پوری طرح توجہ نہ دی جائے اور ایسی نسل تیار نہ ہو جو نہ صرف قرآن و حدیث اور شریعت سے بخوبی واقف ہوں بلکہ ان کو نو عمری میں عملی طور پر اس کے لیے تیار بھی کرایا جائے معاشرے کو اسلامی قالب میں ڈھالنے کا راستہ ہموار نہیں ہو سکتا یہ ایک اچھا آغاز ہو گا اس مقصد کے لئے جہاں حکومت کی جانب سے عربی زبان اور قرآن عظیم کی تعلیم کو موثر بنانے کے لیے اساتذہ کی جہاں تربیت پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی وہاں حکومت ان تعلیمات کو حقیقی معنوں میں تعلیم دلوانے کے لیے اگر محکمہ تعلیم میں دیگر کیڈر کی طرف علماء کیڈر متعارف کرادے اور جید علمائے کرام کی خدمات حاصل کی جائیں تو بہتر رہے گا اس مقصد کے لئے جید علماء کرام کو ان کی عصری تعلیم کے اسناد کی بجائے دینی مدارس کی تعلیمی اسناد پر تقرری کی جائے اور ان کی اہلیت کا معیار دینی اسناد ہی کو ٹھہرایا جائے تاکہ اچھے اور قابل علمائے کرام کو میرٹ پر موقع ملے اس وقت اگرچہ اسلامیات ٹیچرز اور عربی ٹیچرز سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھا رہے ہیں لیکن دینی تعلیم کے لیے جس قابلیت اور کردار کی ضرورت مسلمہ ہے اس میں کمی کا شدت سے احساس بھی ہوتا ہے حکومت کو صرف سرکاری تعلیمی اداروں ہی میں علما ء ٹیچرز متعارف کرانے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ تمام نجی تعلیمی اداروں کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے طالب علموں کی دینی تعلیم کے لیے جید علماء کرام کی خدمات حاصل کی جائیںاس سطح کی مساعی ہو تو امید ہے کہ یہ نہ صرف دین اسلام کی خدمت ہوگی علما ء کرام کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے بلکہ معاشرہ بھی دینی اقدار کا حامل اور اس کی تصویر پیش کرے گی جس سے ہمارے بے شمار مسائل خود بخود حل ہوں گے سب سے بڑھ کر یہ کہ عنداللہ ماجور ہوں گے۔
