حکومت پاکستان نے پاکستان میں مقیم افغانستانی شہریوں کویکم اپریل 2025 سے پہلے پہلے پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا ہے ۔افغان جنگ کو کئی دہائیاں گزر گئیں افغانستان کی نصف آبادی کو پاکستان نے دہائیوں تک اپنا مہمان بنائے رکھا اور اب جب افغانستان ایک مستحکم اور پرامن ملک ہے تب بھی اس کے چالیس لاکھ سے زیادہ باشندے پاکستان میں رہ رہے ہیں ۔ پاکستان کی اقتصادی صورتحال ایسی نہیں ہے کہ وہ اتنے زیادہ تعداد میں افغان شہریوں کو مزید پال سکے اور ساتھ ہی دنیا نے بھی ان افغانیوں کی مزید کفالت سے انکار کردیا ہے ۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان کا جتنا نقصان ہوا ہے اس کا حساب کوئی نہیں کرسکتا ۔ پاکستان ایک مضبوط معیشت کے طور پر ساٹھ کی دہائی میں ترقی کی راہ پر گامزن تھا اس کے بعد جب افغان روس جنگ کا آغاز ہوا تو پاکستان کی ترقی کی وہ رفتار تقریباً ختم ہوگئی ۔صوبہ سرحد جو اب خیبر پختونخوا ہے ، سابقہ قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان کے وہ اضلاع جو افغانستان کی سرحدوں پر ہیں وہ کاروبار ختم ہوگئے ۔ ان آبادیوں کو سمگلنگ کی کھلے عام اجازت دی گئی ، منشیات اور اسلحہ کا کاروبار اس حد تک بڑھ گیا کہ جب دنیا میں ہیروئن پینڈمیک آیا تو اس سے کئی برس پہلے یہ پاکستان سے شروع ہوا تھا اور لاکھوں پاکستانی اس موذی نشے کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے اور لاکھوں خاندان اس نشے نے تباہ کردئیے یہ سارا نشہ افغانستان سے آتا تھا اور پشاور سے لیکر کراچی کی گلی کوچوں میں پاکستانی نوجوانوں کو دستیاب ہوتا تھا ۔ یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری وساری ہے ۔ پاکستان میں اب ایسا کوئی گھر نہیں ہے جس میں اسلحہ نہ ہو یہ سارا اسلحہ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان بھر میں پھیلا اس اسلحہ کی وجہ سے اب روزانہ لوگ قتل ہوتے ہیں ۔ پاکستانی مصنوعات کی ایک بھی انڈسٹری افغانستان کے سرحدوں پر واقع پاکستان کے کسی بھی ضلع میں نہیں ہے ۔اس کی وجہ وہاں سمگلنگ کی کھلے عام اجازت تھی ۔ پاکستان افغان جنگ کے بعد جرائم کی شرح میں کئی سو گنا اضافہ ہوا ۔بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان کا سلسلہ بھی ان افغانیوں کی دین ہے ۔ پاکستان میں منظم جرائم میں اسی فیصد یہی افغانستانی شہری ملوث ہوتے ہیں اس لیے کہ ان کی کوئی شناخت نہیں ہوتی اور انہیں کسی قانون یا کسی کی گرفت کا کوئی خوف نہیں ہوتا ۔ یہ افغانستانی شہری پاکستان پاسپورٹ بناکر مشرقی وسطیٰ اور دیگر علاقوں میں جاکر پاکستان کی بدنامی کا باعث بنے ہیں ۔ افغانستان کی وجہ سے پاکستان میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں کا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے جس میں اسی ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کی جان چلی گئی ۔ امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کی وجہ سے پاکستان میں سیاحت زیرو ہوگئی اور کھیلوں کے عالمی مقابلوں کا انعقاد بند ہوگیا ۔ اگر لکھنے بیٹھیں تو ہزار صفحات کم پڑجائیں مگر نقصانات کی فہرست ختم نہیں ہوگی جو ان افغان شہریوں کی وجہ سے پاکستان نے اٹھائے ہیں اور اٹھا رہے ہیں ۔ مگر حکومت پاکستان نے ان کو نہیں نکالا جس کی وجہ سے نقصانات کی شدت بڑھتی گئی اور اب صورتحال یہ ہے کہ جن افغانوں کو ہم نے پناہ دی تھی وہ ہمارے دشمن بن گئے ہیں اور وہ سرعام پاکستان پر چڑھائی اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کی بات کرتے ہیں ۔ وہ پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان کو نہ صرف ترجیح دیتے ہیں بلکہ سرعام اس کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ ایسے میں پاکستانی حکومت کا یہ مستحسن اقدام کہ ان لوگوں کو ان کے ملک واپس بھیجا جائے اس سے پاکستان کے شہروں خصوصاً پشاور پر غیر ضروری دباؤکم ہوگا ، شہر کا رش ختم ہوجائے گا ، پاکستان کی شہریوں کو مناسب قیمت پر کرائے پر گھر مل سکیں گے اس لیے کہ ان افغانستانی شہریوں کی وجہ سے پشاور میں مکانوں کے کرائے کئی گنا زیادہ ہوگئے ہیں ۔ وہ علاقے جہاں یہ افغانستانی شہری کثیر تعداد میں رہتے ہیں وہاں ہونے والے تمام غیرقانونی دھندے بند ہوجائیں گے ۔ منشیات فروشی اور اسلحہ فروشی کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ سمگلنگ کو کنٹرول کرنا ممکن ہوجائے گا ۔ امن و امان کی صورتحال بہت زیادہ بہتر ہوجائے گی ، اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی آجائے گی ، ڈالروں کی سمگلنگ رک جائے گی ۔ اغوا برائے تاؤان ختم ہوجائیں گے ۔ اور ساتھ ہی جو سمگلروں اور قبضہ گیروں نے اپنی اپنی پرائیویٹ غنڈاگرد گروہ بنائے ہوئے ہیں ان کا خاتمہ ہوجائے گا ۔پاکستان سے باہر غلط طریقے سے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرکے پاکستان کا نام بدنام کرنے والوں کے اگر پاسپورٹس کینسل کردیئے جائیں تو اس سے پاکستان کے شہریوں کو ان ممالک میں درپیش مسائل کم ہوجائیںگے اور انہیں سفری پابندیوں سے نجات مل جائے گی ۔ یہ افغانستانی شہری پاکستان کے لیے مستقل درد سر ہیں اس لیے کہ جب بھی یہاں حالات خراب ہوتے ہیں اس میں ان کا ہاتھ ہوتا ہے اور یہ کرائے پر دستیاب لوگ پاکستان میں مستقل بدامنی پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں ۔ پاکستان اس وقت غذائی اشیاء کی کمی کا شکار ہے جس کی وجہ سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس سے عام آدمی کی قوت خرید شدید متاثر ہوتی ہے ۔ اضافی افغانیوں کے واپس جانے سے غذائی اشیاء کی قلت میں کمی واقع ہوگی تو اس سے ان کے نرخ بہت زیادہ کم ہوجائیں گے ۔ پشاور شہر کے ہسپتالوں میں افغانستانی شہریوں کی وجہ سے جو رش ہے وہ ختم ہوجائے گا اور پاکستانی شہری سہولت کے ساتھ اپنا علاج کرواسکیں گے ۔ ان کے جانے کے بعد دہشتگردوں کو سہولت کار میسر نہیں ہوں گے ۔ تو بدامنی میں کمی آجائے گی ۔ دنیا کی ہر حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرے اور ان پر مسلط ہونے والے بیرونی عناصر کو روکے اور انہیں ان کے شر سے بچائے ۔ افغانستانی شہریوں کی ملک بدری کے خلاف جو لوگ بات کرتے ہیں ان کے مفادات ان سے وابستہ ہیں اور یہ افراد ان کے غیر قانونی کاموں میں معاون و مددگار ہیں ۔ پاکستان میں حوالے ہنڈی کا بہت بڑا حصہ یہی غیر قانونی افغانستانی باشندے چلارہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت دم توڑ رہی ہے ۔ پاکستان سے باہر کالا دھن لے جانے کے لیے بھی لوگ ان کا سہارا لیتے ہیں ۔پاکستان نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں مگر اس کے جواب میں پاکستان کو سوائے دشمنی کے کچھ نہیں ملا پاکستان کے بنتے ہی افغانستان نے پاکستان کے مخالف لوگوں کو پناہ دینا شروع کی اور ان کی حمایت کرتے رہے ۔ اور تاریخ میں طالبان کے پہلے دور کے علاوہ کبھی بھی افغانستان میں کوئی ایسی حکومت نہیں رہی جس نے پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا ہومگر اب جو طالبان و ہاں پر اقتدار میں ہیں وہ کھلے عام پاکستان کے دشمنوں کی نہ صرف حمایت کررہے ہیں بلکہ ان کی پشت پناہی اور عملی مدد بھی کررہے ہیں اور بہت سارے افغان طالبان رہنما برسرعام پاکستان کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں ۔ اگر حکومت اپنے اس اعلان پر قائم رہتی ہے اور ان تمام افغانستانیوں کو ان کے ملک بھیج دیتی ہے تو وہ دن پاکستان کی احیائے نو کا پہلا دن ہوگا اس دن سے ہم نئی ترقی اور معاشی طور پر مستحکم پاکستان کے جانب سفر شروع کریں گے ۔ افغانستان کے ان باشدوں کو ایک ہفتے میں ان کے ملک بھیجا جاسکتا ہے ۔ان کی مدد کرنے والوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو بھی قانون کی گرفت میں لانا چاہئیے تاکہ اس عمل کو کامیاب بنایا جاسکے ۔ یہ جو افغانی پاکستان کو برُا بھلا کہتے ہیں ان کو ان کے ملک بھیجا جائے جہاں وہ افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ ڈالیں اور اپنے ملک کو بہتر کریں ۔ اب کے بار بھی اگر حکومت اپنے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرسکی تو ا س کا ازالہ پھر شاید برسوں میں نہ ہوسکے ۔ تاحال پشاور شہر میں ایک بھی افغانستانی باشندہ اس ڈیٹ لائن کو سنجیدہ نہیں لے رہا ہے ۔ پاکستان صرف اسلام آباد اور راولپنڈی کا نام نہیں ہے اس میں پشاور اور دیگر شہر بھی آتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ان کو پشاور اور خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں سے بھی نکال کر ان کے ملک بھیجا جائے ۔
