سرکاری عمارتوںکو شخصیات سے منسوب کرنے کی ”بندر بانٹ” کے حوالے سے صوبائی حکومت کے فیصلوں پر سوشل میڈیا میں جس بحث کا آغاز چند ہفتے پہلے ارباب نیاز سٹیڈیم کے نام کی تبدیلی اور اسے بانی پی ٹی آئی کے نام سے منسوب کرنے سے ہوا تھا اور جب عوامی سطح پراس فیصلے پر شدید تنقید سامنے آئی تو اس فیصلے کو ”بہ امرمجبوری” واپس لینے کے حوالے سے خود بانی تحریک کے ایک مبینہ بیان کا سہارا لیاگیا اوراس سے پہلے کہ یہ معاملہ عدالت پہنچ جاتا محولہ فیصلہ واپس لے کر عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے ہی میں عافیت سمجھی گئی تاہم وہ معاملہ ابھی عوام کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا تھا کہ ایک اور متنازعہ فیصلے کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے ہماری دانست میں اس مسئلے کے دو پہلودکھائی دیتے ہیں یعنی ایک تو یہ کہ اگر بہ فرض محال کسی بھی ادارے یا عمارت کو کسی کے نام سے موسوم کرنا ضروی ہے تو اس حوالے سے اولیت کا درجہ خود اس صوبے کے نابغہ روزگار ان شخصیات کو دینا چاہئے جن کی یا تو محولہ شعبے میں خدمات تاریخی حیثیت کی ہوں یا پھر کم از کم ان کا تعلق قومی سطح پر خدمات بجالانے والے صوبائی اکابرین میں سے ہو نہ کہ کسی ”درآمدشدہ” شخص کوجسے اپنے صوبے یا شہر میں کوئی اہمیت دینے کو تیار نہ ہو مگر کچھ لوگ اپنی پسند و ناپسند کو معیار بنا کر اس کے نام سے ادارے موسوم کرنے پرتلے بیٹھے ہوں ‘ اگر پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کو کسی نام سے موسوم کرنا اتنا ہی ضروری ہے تو اس سلسلے میں صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے مستند بابائے صحافت اللہ بخش یوسفی ہی حقیقی شخصیت ہو سکتے ہیں ان کے علاوہ مزید کئی اہم نام بھی دیئے جا سکتے ہیں جن کا کم از کم کسی موجودہ سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے اور ان کے ناموں پر اتفاق رائے بھی کیا جاسکتا ہے مگر ایک صوبے کے ایک اہم ادارے کو ایک ”حادثاتی طور پر” اہمیت اختیار کرنے والے شخص کے نام سے موسوم کرنے سے کئی سوال جنم لے رہے ہیں دوسرا پہلو اس مسئلے کا یہ ہے کہ موجودہ حکومت گزشتہ تقریباً دس سال(تیسری باری جاری ہے) سے صوبے میں برسراقتدار رہتے ہوئے عوام کے لئے ریلیف دالنے میں جن ناکامیوں سے دوچار ہے اس حوالے سے مخالف سیاسی حلقوں کی جانب سے اعتراضات سے بچنے کے لئے غیر ضروری اعلانات اور اقدامات کی آڑ لینے پر مجبور ہے حالانکہ اسے غیر ضروری مسائل میں الجھنے کی بجائے عوام کی خدمت کے ذریعے عوام کی خوشنودی حاصل کرنے پرتوجہ دینی چاہئے۔
