دورہ اسرائیل اور پاکستانی؟

اسرائیلی میڈیا میں رواں ماہ گیارہ پاکستانیوں کے دورہ اسرائیل کی خبریں سامنے آنے کے بعد دفتر خارجہ کے ترجمان کا ردعمل اگرچہ اصولی طور پر درست ہے کہ محولہ دورے کی تصدیق ابھی تک نہیں ہوسکی کہ وفد کے ارکان نے کس ملک کے پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا تاہم اس واقعے کو یوں آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس بات کی پوری پوری تحقیقات ہونی چاہئے کہ اگر واقعی گیارہ پاکستانیوں نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے تو انہوں نے کس ملک کا پاسپورٹ استعمال کیا ہے اور اس حوالے سے نہیں سہولیات فراہم کرنے میں کون کون ملوث تھے کیونکہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جس نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے نہ ہی پاکستانی پاسپورٹ کے ذریعے اسرائیل کا سفر ممکن ہے کہ پاسپورٹ پر نمایاں طور پر یہ الفاظ درج ہیں کہ یہ پاسپورٹ ماسوائے اسرائیل کے تمام دنیا کے لئے سفر میں کارآمد ہے چند سال پہلے اگرچہ پاکستان کے کچھ اشخاص کے حوالے سے اسرائیل کا خفیہ دورہ کرنے کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں جن کی تصدیق کے حوالے سے ایک پراسرار خاموشی چھائی ہوئی ہے تاہم تازہ دورہ اسرائیل کے حوالے سے خبروں کے مطابق گیارہ پاکستانیوں نے مبینہ طور پر سات اکتوبر کو اس دورے کے دوران ”ہولوکاسٹ” میوزیم اور کچھ دیگر اہم مقامات کا دورہ کیا جبکہ ایک پاکستانی صحافی سبین آغا کے مطابق دورے کامقصد اسرائیلی ثقافت اور لوگوں کوسمجھنے کی کوشش کرنا تھا محولہ صحافی کے اس بیان کے بعد تو محولہ دورے کی تصدیق میں کوئی امر مانع نہیں رہا اورجن لوگوں نے یہ دورہ کیا ان سے پاکستان کے اصولی موقف کی خلاف ورزی کے حوالے سے پوچھ گچھ ضرور ہونی چاہئے اسرائیل کوتسلیم کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے پاکستان قومی سطح پر ہی فیصلہ کر سکتا ہے اگر بقول سبین آغا کے بعض عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہترکرتے ہیں تو یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے تاہم جہاں تک پاکستان کے فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے موقف کا تعلق ہے تو اس سے روگردانی کا کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے اصولی موقف کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس لئے دیکھنا یہ ہے کہ جن لوگوں نے پاکستانی ہوتے ہوئے بھی اسرائیل کا دورہ کیا ان کے پاس دوہری شہریت تو نہیں ہے؟۔

مزید پڑھیں:  وزیر اعلیٰ کا ادھورا سچ