حکم امتناع کی استدعا مسترد

پرائیویٹ سکولوں کے امتحانی ہالوں کی منتقلی کیخلاف حکم امتناع کی استدعا مسترد

ویب ڈیسک: پشاور ہائیکورٹ نے کوہاٹ بورڈ کی جانب سے پرائیویٹ سکولوں کے امتحانی ہالوں کی سرکاری سکولوں میں منتقلی کیخلاف دائررٹ پٹیشن پر عبوری حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی ۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس سید ارشدعلی نے ریمارکس دیئے کہ اسسٹنٹ کمشنر کو امتحانی ہالوں کے اندر جانے کی اجازت نہیں دینگے۔
درخواست پر سماعت جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس خورشید اقبال پر مشتمل بنچ نے کی، درخواست گزار کے وکیل نے بتایاکہ کوہاٹ بورڈ نے سرکاری و پرائیویٹ سکولوں کے امتحانی ہالوں کو ایک کردیا ہے، پہلے سرکاری سکولوں کے الگ امتحانی ہال تھے اور پرائیویٹ سکولوں کے الگ ہال ہوتے تھے۔ اب 8اپریل کو میٹرک کے امتحانات ہورہے ہیں۔
اس موقع پر چیئرمین کوہاٹ بورڈ امتیاز ایوب نے بتایاکہ بورڈز ایکٹ کے تحت ایجوکیشن بورڈ کو اختیار حاصل ہے، 5اضلاع کوہاٹ، کرم ، ہنگواور اورکزئی میں امتحانی ہالز بنائے گئے ہیں، ایک لاکھ طلبامیٹرک کے امتحان دینگے جس کیلئے 319 ہالز بنائے ہیں جو سرکاری تعلیمی اداروں میں ہیں۔
چیئرمین تعلیمی بورڈ نے عدالت کو مزید بتایاکہ 250 پرائیویٹ ادارے ہیں، سارے کرائٹیریا پر پورے نہیں اتر تے ،ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں ، سپلیمنٹری امتحان سرکاری ہالوں میں ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ نقل کی لعنت کے تدارک کیلئے یہ اقدام اٹھانا ضروری تھاکیونکہ نقل مافیا اس کھیل میں مصروف ہے، یہ باہر سے طلبالاتے ہیں اور امتحان لیتے ہیں، ایک نجی سکول بھی اس میں ملوث نکلا ہے اورعدالت اس کی تحقیقات کر سکتی ہے۔
عدالت کو مزید بتایاگیاکہ یہ لوگ ایک منظم طریقے سے دھوکہ کرتے ہیں کیونکہ امتحانی ہال انکے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔
چیئرمین بورڈ کا کہنا تھا کہ آج آخری ورکنگ ڈے ہے اور عید کے بعد امتحان ہے۔ہم ساری ڈیوٹیاں لگا چکے ہیں ، ضلع کرم میں تمام انتظامات کیے ہیں۔
اس دوران جسٹس ارشدعلی نے استفسارکیاکہ آپ نے امتحانی ہال نوٹیفائی کئے ہیں جس پر چیئرمین بورڈ نے بتایاکہ ہم نے ہالز 2ماہ پہلے نوٹیفائی کیے ہیں ،تمام انتظامات مکمل ہیں،اس پالیسی کو صوبائی حکومت نے سراہا ہے اور اب یہ تمام صوبے میں لاگو کیا جا رہا ہے۔
چیئرمین بورڈ نے بتایاکہ اس درخواست کے ساتھ والدین کی طرف سے جعلی دستخط کے کاغذات لگائے گئے ہیں، ہم کسی کے کہنے پر ان کی مرضی کے ہالز نہیں دے سکتے۔
دوسری جانب درخواست گزارکے وکیل نے دلائل دیئے کہ درخواست گزاروں کے پاس تمام سہولیات سے آراستہ امتحانی ہالزموجود ہیں، 1 لاکھ طلبامیں 70 ہزار طلباتو پرائیویٹ سکولزکے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ قانون موجود ہے اس کے تحت کسی بھی ملوث سکول کو سزادے سکتے ہیں، چیئرمین صاحب نے صرف الزامات لگائے، کارروائی کیوں نہیں کی؟ ایک نجی سکول سے امتحانی ہال کے پیسے لیے گئے ہیں، درخواست گزار 13 سال سے اپنے امتحانی ہالز چلا رہے ہیں۔
عدالت کو بتایاگیاکہ بورڈ نے امتحانی ہالز کیلئے 20 فروری کو اعلامیہ جاری کیا ، بورڈ نے اعلامیہ میں 1لاکھ روپے امتحانی ہال کی رقم مختص کی تھی، کرم کے طلباکو فرقہ واریت کے باعث مشکل میں ڈالا جا رہا ہے، چیف سیکرٹری کہہ رہے ہیں کہ اسسٹنٹ کمشنر ہالز دیکھیں گے ،یہ کام اسسٹنٹ کمشنر کا نہیں ہے۔
وکیل نے استدعا کی کہ عدالت فریقین کو روکے اور طلباجہاں ہیں وہاں امتحان لیا جائے کیونکہ امتحانی ہالوں سے متعلق فیصلے تعلیمی بورڈز کا اختیار ہے، چیف سیکرٹری کے پاس یہ اختیار نہیں ہے۔ امتحانی ہالوں کا سارا عملہ بورڈز فراہم کرتی ہے، سارے انتظامات تو تعلیمی بورڈز کرتے ہیں۔
اس موقع پر بورڈ وکیل نے بتایاکہ ہم نے اپنا ہوم ورک کیاہے، سیکورٹی بھی فراہم کی ہے ان کو جانے پر کیا اعتراض ہے؟جس پر جسٹس ارشدعلی نے کہاکہ ہم اسسٹنٹ کمشنر کو اندر جانے کی اجازت نہیں دیں گے جس پر بورڈ وکیل نے کہاکہ اسسٹنٹ کمشنر باہر ہوگا ہم حلفیہ بیان دینے کو تیار ہیں۔امتحانی ہال کی اجازت دینے کے بعد 5ہزار اور 1 لاکھ روپے لیں گے، جب ہالز نہیں دیں گے تو پیسے کیسے لیں گے۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کوبتایاکہ ایجوکیشن ایکٹ 1990 کے تحت یہ حکومت کا اختیار ہے، حکومتی پالیسی میں عدالت مداخلت نہیں کرسکتی اس میں بچوں کے حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے جبکہ چیئرمین کوہاٹ بورڈ نے بتایاکہ ہم نے کسی سکول سے فیس نہیں لی، فیس لینگے تو اس کو ہال کی اجازت دینگے، دو ماہ پہلے ہمارے ویب سائٹ پر فیصلہ جاری کیا گیا ہے۔
بعدازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر امتحانی ہالوں کی منتقلی روکنے کیلئے حکم امتناعی کی درخواست خارج کردی۔

مزید پڑھیں:  نوشہرہ میں آٹا سستا ہونے کے باوجود روٹی کی قیمت 30 روپے برقرار