پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے درست کہا ہے کہ ملک میں گہری تقسیم قومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک حوصلہ افزا پیشرفت ہے کہ بلاول بھٹو زرداری حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان ثالثی میں کردار ادا کریں قبل ازیں حکمران جماعت کی جانب سے بھی ایک مثبت عندیہ یہ دیا گیا تھا کہ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے ایک اور اجلاس طلب کرنے میں قباحت نہیں ہوگی اور حکومت ضرورت پڑنے پر اس کے لیے تیار ہے واضح رہے کہ تحریک انصاف نے کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا اجلاس کے انعقاد کا بنیادی مقصد عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے کے فوری معاملے پر سیاسی اتحاد کا قیام تھا بلاول بھٹو کی جانب سے مفادات سے بالاتر ہو کر تمام سیاسی قوتوں کو ایک جگہ اور ایک میز پر اکٹھا کر کے قومی حکمت عملی تشکیل دینے کے حوالے سے مساعی کا پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر تمام سیاسی جماعتوں اور قوتوں کو مثبت جواب دینا چاہئے تاکہ قومی اتحاد اور یگانگت کی راہ ہموار ہو سکے یہ ان عناصر کو مثبت انداز میں جواب ہوگا جو قومی تقسیم کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں مکالمہ کی ضرورت حکومت کی ہی جمہوری ذمہ داری نہیں بلکہ ایک ملک گیر جماعت کے طور پر پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی تحفظات اور اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملک کو درپیش مسائل سے نکالنے کے لیے ذمہ دارانہ کردار ادا کرے موثر انسداد دہشت گردی پالیسی کے لیے سیاسی ملکیت کی ضرورت مسلمہ ہے جو مکمل طور پر اتفاق رائے کے بغیر ممکن نہیں مشاہدہ ہے کہ کامل اتفاق رائے کے بغیرکسی بھی پالیسی کا نفاذ کمزور اور قلیل المدت رہتا ہے اجلاس علامتی نہیں ہونی چاہیے بلکہ سوچ سمجھ کے ساتھ اجلاس کا انعقاد کیا جائے اور اس امر کا خاص طور پر جائزہ لیا جائے کہ کس طرح کمزور علاقوں کو محفوظ بنایا جائے اور عسکریت پسندی کی اس نئی لہر سے کیسے نمٹا جائے اگر تمام سیاسی فریق پختگی کا مظاہرہ کریں تو دہشت گردی کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کا یہ ایک اچھا موقع ہے اس کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بھی باہمی روابط میں اضافہ اور غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے بھی یہ بیٹھک مفید ہوگی۔
