”مجھے روکنے کے لئے ممی پاپا نہیں تھے”

جب والدین دولت کی محبت کی مریض ہو جائے تو اس سے بچوں کی زندگی میں جتنا بھی فساد برپا ہوجائیں،کم ہے۔دنیا کی یہ حرص وہوس ایسی ہے جو فردوافراد کی اخلاقی وروحانی زندگی کی بربادی کے لیے کافی ہے۔تعلیم تو اسکولوں سے ملتی ہے مگر تربیت اچھی یا بری والدین کی ذمہ داری ہے۔ایک لڑکی کا شکوہ کچھ اس کی زبانی ہی سنئے ان کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے قصبے سے پشاور پڑھنے کے لئے آئی تو یہاں کے ماحول میں وہ بہت جلد شراب اور آئس سموکنگ کی لت کا شکار ہو گئی اور وہ کچھ نہیں بس یہی کہتی ہے کہ مجھے روکنے کیلئے ممی پاپا نہیں تھے۔کئی مطالعوں سے پتہ چلا ہے کہ منشیات کے عادی 100 لوگوں میں 40 لڑکیاں ہوتی ہیں۔
آج کا نوجوان کہاں کھڑا ہے،لباس ہو یا طور طریقے، چلنے کا انداز ہو یا گفتگو کا انداز ان کی تمام حرکات قابل مذمت اور قابل افسوس ہوتے ہیں لیکن ان سارے معاملات میں صرف یہ نوجوان ہی قصوروار نہیں بلکہ ان کے والدین کا بھی حصہ شامل ہوتا ہے ،جنہوں نے اپنے فرائض سے غفلت برتی اور ان کی تربیت کو قابل توجہ نہ جانا۔ سامنے کی بات ہے کہ ہمارے بچے اپنے دین کی اعلی قدروں اور دینی روایات سے بیزار ہیں۔ان کے اندر مذہب سے بیگانگی اور شریعت کی پابندی سے اعلانیہ بغاوت ہے ۔انہیں تفریحی مشاغل سے فراغت اور فیشن پرستی سے فرصت نہیں،نمود ونمائش کے یہ دھندے ان کی جان کا آزار بن گئے ہیں۔لڑکیوں کو لڑکے کے شانہ بشانہ ترقی کرنے کی خواہش بے قرار رکھتی ہے ۔وہ ہر کام میں مردوں کی نقالی کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ اپنی نسوانیت کھوتی جارہی ہیں،اسی طرح لڑکے لڑکیوں میں مقبول ہونے کے لئے ان کے نظریات کو پسند کرنے لگتے ہیں ۔ان کے انداز گفتگو،ان کے فکرو نظر میں مردانہ وجاہت باقی نہیں رہتی ۔اس کا انجام یہ ہوا کہ دونوں اپنے آپنے فطری مقام سے گرگئے۔اب تو اس فیشن کی وجہ سے نوجوانوں کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی۔لڑکیاں جینز ،ٹی شرٹ میں ملبوس مکمل لڑکوں والا حلیہ بنائے خود پر فخر محسوس کرتی ہیں تو لڑکے ہاتھوں میں کنگن ڈالے،بالوں کی پونی بنائے ،کانوں میں بالیاں سجائے صنف نازک کو مات دیتے دکھائی دیتے ہیں۔جو لباس کل تک شب خوابی کے لیے بھی پہنتے ہوئے لحاظ رکھتی ہونگی کہ بچے بڑے بھی گھر میں ہوتے ہیں،کہیں اچانک انکی نظر نہ پڑ جائے وہ آج بازاروں میں اپنی غیرت مند باپ،بھائی اور شوہروں کیساتھ گھومتی پھرتی دعوت نظارہ دیتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کل بوڑھے والدین ایسی نازک ترین صورتحال کا شکار ہیں کہ ان کی جوان اولاد کسی طور پر بھی انہیں سنبھالنے اور ان کی خدمت کرکے ان کا سہارا بننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ ایکسر سائز کے نام پر ذلالت کی انتہا ہو گئی ہے جسکے لیے فحاشی بھی بہت ہلکا لفظ ہے۔حالانکہ یہ سراسر ہماری غلط حکمت عملی کے باعث سامنے آتی ہیں۔ اپنے گریباں
میں جھانک کے دیکھیں کہ نئی نسل نے کس کی انگلی پکڑ کے چلنا سیکھا ہے ۔اس نسل نے کس کی گود میں آنکھیں کھولی ہے، وہ کون ہے جس نے ان کو یہ انداز سکھائے ہیں؟ کوئی ماں باپ نہیں کہتا کہ میری اولاد بگڑ گئی ہے۔میرا لڑکا یا لڑکی آوارہ یا بد چلن ہے۔اگر ہر والدین کی اولاد نیک وپارسا ہے تو یہ بدچلن آوارہ گرد لوگ کون ہیں ؟ کیا یہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں؟ میں بھی برا نہیں ہوں،اپ بھی برے نہیں ہیں تو پھر معاشرے کا ناسور کون لوگ ہیں ؟ یہ کس دنیا کے تربیت یافتہ ہیں؟ میرے پیارے نوجوانو اور خاص طور پر والدین، میرے ان سوالوں کا جواب شاید سب کے پاس ہو مگر ان کا جواب کوئی نہیں دے گا،لیکن میرے پیارے جوانوں اس سے پہلے کہ کل کوئی آپ سے یہی سوال کرے اور آپ اس کا جواب نہ دے سکے تو براہ کرم ابھی بھی وقت ہے سنبھل جائیں خود کو سنبھالیں،آپ کے پاس علم بھی ہے اور انسانی نفسیات کو سمجھنے کے تمام تر وسائل بھی۔اپ نے بھی صاحب اولاد ہونا ہے کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولاد بھی آپ کے بارے میں یہی سوچے جو آپ کسی کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔کیا آپ اپنی اولاد کو اسی راستے پر چلائیں گے جس پر چل کر آپ نہ زندوں میں ہوںگے اور نہ مردوں میں ۔اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ اپنے خوبصورت پھولوں کو کلاشنکوف سے دور رکھیں اور وہ سکون کی تلاش میں اس زہر سے دور رہیں جسے آئیس اور سوشل
میڈیا کہتے ہیں جو آج کل سر عام دستیاب ہیں تو خدا کے لیے اپنا محاسبہ کیجئے۔کیا کسی میں اتنا حوصلہ ہے کہ ان معصوموں پر اپنے اندر کے وحشی کو ظاہر کردے۔جھوٹ کا لبادہ اتار پھینکے۔یقین کریں ھم خود کو فرشتہ ظاہر کرنے والوں کے اندر کا وحشی جب ان پر ظاہر ہوتا ہے تو ان پھولوں کی شخصیت اس پنڈولم کی طرح ہوجاتی ہے جو نفرت اور محبت سے لٹکا ہوا ہو۔سوال یہ ہے کہ آج ان کو شمع محفل کس نے بنایا ہے؟ صرف یہودیوں نے ؟ آج پھر اسے گھر کی ملکہ کی بجائے لوگوں کی ٹھوکروں میں کس نے ڈالا ہے ؟اج پھر اسے زندہ درگور کرنے والی چیز کون بنا رہا ہے ۔انسانی ذہن صرف عیاشی کی طرف جھکتا ہے ۔کاش یہ سوچ لیں آپ،ہم کہ اس نسل یا آئندہ آنے والی نسل کو برا کہنے سے پہلے ہم خود کو سنوار لیں۔ہمارے اردگرد کیا کچھ نہیں ہوتا،ہمارے جوانوں کے روزمرہ زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔کیا آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ آپ کی ناکام خواہشیں ،کچلے ہوئے جذبات واحساسات کا خوف کہاں چلا جاتا ہے ۔اپ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ دوسروں کو برا بھلا کہنے سے پہلے ہم خود کو سنوار لیں۔ہماری ایک بہت بری سماجی عادت ہے کہ ہم ایسے ماحول میں دوری اختیار کرنے کی بجائے تب تک ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں جب تک اگلا ہمیں نفرت کی حد تک ناپسند نہیں کرنے لگ جاتا ہے اور افسوسناک امر یہ ہے دینی تصور رکھنے والی جماعتیں بھی اس بے حیائی،فحاشی پر خاموش آخرکیوں ہیں ؟۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی