وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھ کر دسویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (این ایف سی) کے اجلاس کی فوری طلبی کے حوالے سے کیا جانے والا مطالبہ صوبے کے مفادات کے عین مطابق قرار دینے میں کوئی امر مانع قرار نہیں دیا جا سکتا بدقسمتی سے این ایف سی اجلاس کے انعقاد میں وفاق کی جانب سے ہمیشہ تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں اور صوبوں کو ان کے جائز حق سے محروم رکھنے کے لئے ان کی جانب سے تجاویز سامنے آنے کے باوجود جبکہ پانچ س ال بعد قومی محاصل کی تقسیم کا ازسر نو تعین کرنا لازمی ہوتا ہے اجلاس بلانے سے عمومی طور پر احتراز کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے تاہم جہاں تک وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے صدر مملکت کو اس حوالے سے خط لکھنے اور این ایف سی اجلاس کے فوری طور پر بلانے کے مطالبے کا تعلق ہے تو اس کی ایک اور خاص وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ 2018ء میں 25ویں آئینی ترمیم کے تحت سابق فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کئے جانے کے بعد متعلقہ اضلاع کے 57 لاکھ شہریوں کے لئے مالی وسائل کی صوبہ کو فراہمی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے حالانکہ جب تک یہ اضلاع وفاق کے زیر انتظام تھے تو ان کے لئے مختص فنڈز باقاعدگی کے ساتھ گورنر کے زیر انتظام متعلقہ اداروں کو فراہم کئے جاتے تھے اور وہاں پر عوام کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کئے جاتے تھے لیکن فاٹا کے سابق علاقوں کو اضلاع کادرجہ دینے اور انہیں صوبہ خیبر پختونخوا کے ماتحت کرنے کے بعد ان علاقوں کے لئے مختص فنڈز کی صوبے کو ادائیگی نہیں کی جا رہی ہے جبکہ ان تمام اضلاع میں پوری انتظامی مشینری پر سالانہ اٹھنے والے اخراجات صوبے کو اپنی طرف سے برداشت کرنے پڑ رہے ہیں جس سے صوبے کی مالیات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور ان اضافی اخراجات کی وجہ سے صوبے میں ترقیاتی کام بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اس لئے صدرمملکت اگر آئینی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلوا کراس مسئلے کو حل کرادیں تو صوبہ خیبر پختونخوا جو پہلے ہی دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے ‘ اور سابق فاٹا کے انتظامی اخراجات سے مزید مشکلات کا شکار ہے اس مشکل صورتحال سے باہر آنے میں اسے ریلیف ملے گا۔
