ہمارا نظام تعلیم چونکہ ہمیں انگریز سرکار سے ورثے میں ملا ہے اس لیئے دین اسلام اور شریعت میں تعلیم کے حوالے سے واضح احکامات اور گائیڈ لائین کے باوجود ہم آذادی کی سات دہائیاں گزارنے کے باوجود اسلام کی روح کے مطابق ایک آذادانہ میڈ ان پاکستان نظام تعلیم کے نفاذ سے آج بھی کوسوں دور ہیں جس کا خمیازہ پورے معاشرے کو ایک ایسی نسل کی تیاری کی صورت میں بھگتنا پڑ رہاہے جسے اگر مادر پدر آذاد کہاجائے تو بے جا نہیں ہوگا۔موبائل اور انٹرنیٹ جیسے ابلاغی ٹولز کی ایجاد اور عام ہونے کے بعدآج کے دور میں مخلوط تعلیم یعنی مرد و خواتین کا ایک ایسی عمر میں جس میں ان کا مخلوط ارتباط سے شیطان کے ہاتھوں شکار ہونا انتہائی آسان ہوگیاہے مل جل کر ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنایقینا ایک اہم اور سنگین سماجی مسئلہ بن چکا ہے جس پر اسلامی نقطہ نظر سے غور کرنا ضروری ہے۔مثلا قرآن مجید میں مرد و خواتین کی شرم و حیا اور حدود و قیود کا واضح احکام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں
ترجمہ: "اور مومن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بے شک اللہ ان کے کاموں سے خوب باخبر ہے۔(سورہ النور)
اسی طرح خواتین کے بارے میں فرمایا گیا۔(ترجمہ): "اور مومن عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو جائے۔(سورہ النور: 31))
اللہ تعالی نے مزید فرمایا:ترجمہ: "اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ پہچانی جائیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے۔(سورہ الاحزاب: 59))
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عورتوں اور مردوں کے لیے الگ الگ تعلیم و تربیت کی اہمیت پر زور دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(ترجمہ): "عورت پردے میں رہنے کی چیز ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف نظر اٹھاتا ہے۔(سنن الترمذی :1173)ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(ترجمہ): "مردوں کی بہترین صف پہلی صف ہے اور بدترین صف آخری ہے، جبکہ عورتوں کی بہترین صف آخری ہے اور بدترین صف پہلی ہے۔”(صحیح مسلم: 440))
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین کے لیے علیحدہ تعلیمی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا تھا، جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابیات علم حاصل کرتی تھیں لیکن مخلوط ماحول میں نہیں۔
اسلام میں حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے، اور مخلوط تعلیمی نظام میں اس کا فقدان دیکھا جاتا ہے۔مرد و خواتین کے آزادانہ میل جول سے بے راہ روی، فحاشی اور دیگر سماجی برائیاں جنم لیتی ہیں۔طلبہ و طالبات کا ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہونا تعلیمی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔جب اسلامی حدود کی پاسداری نہ کی جائے تو معاشرے میں بے راہ روی اور خاندانی نظام کی خرابی پیدا ہوتی ہے۔اسلام میں حیا اور پردہ ایک بنیادی اخلاقی اور سماجی قدر کے طور پر اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ حیا ایمان کا ایک لازمی جزو ہے، جو انسان کو برائیوں سے بچنے اور نیکی اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ نبی اکرمۖ نے فرمایا:”حیا ایمان کا حصہ ہے”۔ (بخاری)پردہ اسلام میں مرد و عورت دونوں کے لیے ایک اصولی ہدایت ہے جو شرم و حیا اور پاکیزگی کے فروغ کا ذریعہ بنتا ہے۔
پردہ عورت کی عزت و وقار اور معاشرتی امن کا ضامن ہے۔ یہ صرف لباس تک محدود نہیں بلکہ نظریں، گفتار اور کردار میں بھی حیا ضروری ہے۔ مردوں کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ حیادار لباس پہنیں اور خواتین کے ساتھ غیر ضروری میل جول سے بچیں کیونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حیا اور پردہ صرف خواتین کے لیے نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی لازم ہے، تاکہ معاشرے میں عزت، وقار اور اخلاقی اقدار کو فروغ دیا جا سکے۔ یہی اصول ایک متوازن، باعفت اور مثالی اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے۔حیا اور پردے کا تصور اسلامی معاشرے کو پاکیزگی، عزت اور امن عطا کرتا ہے، اور یہ مرد و عورت دونوں کے لیے ایک خوبصورت اخلاقی اصول ہے۔مرد وزن کے اختلاط کے سماجی نقصانات اور اس حوالے سے اسلام کے واضح احکامات کا تقاضہ ہے کہ مرد و خواتین کے لیے الگ الگ تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں۔اگر کسی مجبوری کے تحت مخلوط تعلیم ہو بھی تو مکمل اسلامی پردے کا اہتمام کیا جانا چاہیئے۔تعلیمی نصاب میں اسلامی اخلاقیات، حیا اور پردے کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے خواتین کے لیے گھروں میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
مخلوط تعلیم کے حوالے سے قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔ اسلام میں مرد و خواتین کے درمیان حدود متعین کی گئی ہیں تاکہ معاشرتی نظام پاکیزہ اور مضبوط رہے۔ لہذا ہمیں اسلامی اصولوں کے مطابق ایک ایسا تعلیمی نظام اپنانا چاہیے جو اسلامی اقدار اور معاشرتی اخلاقیات کی روشنی میں مرد و خواتین دونوں کیلئے علم حاصل کرنے کے یکساں مواقع فراہم کرے۔حیران کن طور پر ہمارے ہاں پرائمری ،مڈل،سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری کے تعلیمی ادارو ں جہاں عمر کے لحاظ سے بچے اور بچیاں یا تو بلوغت کی عمر تک نہیں پہنچے ہوتے اور یا پھر بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے باوجود بھی ابھی ابتدائی عمروں میں ہونے کی وجہ سے ان کا کسی بڑے معاشرتی نقصان کاشکار ہونے کاامکان کم ہوتا ہے لیکن ان عمروں میں پچوں اور بچیوں کیلئے الگ الگ درس وتدریس کاانتظام موجود ہے جو ہمارے تعلیمی نظام کے ناقص ہونے کا واضح ثبوت ہے جب کہ یہی بچے جب بڑے ہوکر پہلے نوجوان اور پھر جوان بنتے ہیں تو ہم انہیں پیشہ ورانہ اور اعلی تعلیمی اداروں (جامعات) میں یکدم اور یکسر مخلوط نظام تعلیم کے حوالے کر کے ان سے برائی سے بچنے کی توقع کرتے ہیں جو محض خود فریبی اور مذاق ہے۔لہذا اگر من الحیث القوم ہم مخلوط نظام تعلیم کے چیلنج سے عہدہ برا ہونا چاہتے ہیں تو اس میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں اور بچیوں کو آذادانہ اور الگ الگ اسلامی ماحول میں تعلیم کے مواقع فراہم نہ کرسکیں اس ضمن میں جہاں گرلز ڈگری اورمیڈیکل کالجز اور خواتین جامعات کی مثال دی جاسکتی ہے وہاں ابتدائی مرحلے میں مخلوط تعلیمی اداروں میں کم از کم سیکشنز کی علیحدگی کی صورت میں اس مشکل کام کو آسان اور قابل عمل بنایا جا سکتا ہے ۔
