جیسے پانی پہ ہو پانی سے ہی پانی لکھنا

پشتوزبان میں ایک لطیفہ نما کہانی مشہور ہے جس کی بنیاد”خوشامد اور چاپلوسی” پر قائم ہے ‘ مختصرمگر دلچسپ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک شخص گائوں کے حجرے سے اٹھ کر گھر آیا تو وہ بہت خوش خوش لگ رہا تھا ‘ بیوی نے اس کی یہ حالت دیکھ کر پوچھا خیریت ہے؟ آج تو بہت خوش خوش لگ رہے ہو؟ اس نے آگے سے جو جواب دیا وہی اس کہانی نما لطیفے کا پنچ لائن ہے اور وہ یہ کہ شوہر نے جواب دیا ‘ اری نیک بخت آج خان نے مجھے ۔۔۔۔۔ کہہ کر پکارا ہے ‘ اس لئے خوش ہوں( اب یہ جو ڈاٹس آپ کو نظر آرہے ہیں اسے آپ اپنی مرضی سے ملا کر اپنے لئے تفنن طبع کا اہتمام کر سکتے ہیں ‘ تاہم جو لقب گائوں کے خان نے اپنے اس گماشتے کے لئے استعمال کیا تھا وہ آپ کسی ٹیٹھ پٹھان سے ہی معلوم کر سکتے ہیں ‘ دراصل اس ساری کہانی کا پس منظر یہ تھا کہ خان کی تیوری ہر وقت چڑھی ہوتی تھی ‘ غصہ ہر لمحے اس کی ناک پر دھرا ہوتا تھا ‘ ایسی صورت میں اگر اس نے کہیں ”بھولے سے”اپنے گماشتے کو ”پیار” میں۔۔۔ کہہ دیا تو اس کی خوشی کی انتہا کا نہ ہونا تو بنتا تھا ‘ یعنی بقول شاعر
کتنا مشکل ہے محبت کی کہانی لکھنا
جیسے پانی پہ ہو پانی سے ہی پانی لکھنا
دراصل اس ”خوشامد گر” کا یہ واقعہ اس لئے یاد آگیا کہ ہماری سیاست میں بھی ”خوشامد” جس قدر اس وقت عروج پر ہے ایسا پہلے تھا مگر اس نہج پر نہیں تھا ‘ ایک تازہ واردات بطور ثبوت اس حوالے سے پیش کیا جا سکتا ہے اور وہ ایک ”نواوارد سیاست دان” کا وہ بیان ہے جو موصوف نے اپنے ہی حوالے سے دیا ہے اور کہا ہے کہ تین بار سابق ہو چکا ‘ ایک اور سیاسی رہنما کے بارے میں موصوف نے یہ کہا کہ ”وہ” خوشامدی نہیں ہے ”ممکن ہے کہ موصوف کا بیان ”درست”ہو مگر مسئلہ یہ ہے کہ خود ان کے محولہ بیان سے ”خوشامد” کی بو آرہی ہے ‘ اس لئے کہ جب ان کے بیان کے اس حصے پر نظر ڈالی جائے جس میں انہوں نے خود اپنے بارے میں تصدیق کی ہے کہ وہ تین بار سابقہ ہوچکے ہیں ‘ تو اس سے یہ مطلب اخذ کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہو سکتاکہ بے چارہ”وہ خوشامدی نہیں ہے” والے بیانئے کے ذریعے ”خوشامد” کرکے چوتھی بار ”ان” ہونا چاہتا ہے حالانکہ اگر کسی اور کو یوں بار بار سابقہ کرنے کی کارروائیاں کی جاتیں تو شایدوہ ”غیرت” کھانے پر مجبور ہو کر یوں بار بار واپسی پر فخریہ انداز میں اپنی حمیت کو نیلام نہ کرتا ‘ مگر بقول شاعر
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
اس لئے اس روایتی خوشامدی ”گماشتے” کی طرح بار بار دھتکارے جانے اوربرا بھلا سننے کے بعد جب خان اسے چمکارتے ہوئے ۔۔۔۔۔ کہہ کر پکارتا ہے تو خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے فخریہ انداز میں گھر پہنچ کر خان کی ڈانٹ کے بہ الفاظ دیگر پکارے جانے پر بھی اپنی زوجہ کے سامنے خوشی کا اظہار کرتا ہے اور یہ جو ایک اور سیاسی رہنما کی ”خوشامد” کرتے ہوئے اسے ”خوشامدی نہیں ہے” کے الفاظ سے یاد کیا ہے تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک بار پھر سابقہ سے ”موجودہ” ہونے کے لئے تگ و دو میں مصروف ہے حالانکہ موصوف کے ساتھ ”تین بار” جو سلوک روارکھا گیا ‘ اس کی جگہ کوئی بھی دوسرا ہوتا تو بقول ڈاکٹر راحت اندوری اس کا رویہ کچھ یوں ہوتا یعنی
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خریدلے میرا
میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا
مگر کیاکیا جائے کہ اب ماضی کے ”بلند قامت”سیاسی رہنمائوں کے مقابلے میں سیاسی میدان اکثریت پستہ قد سیاسی جگلروں کی رہ گئی ہے جو قومی مفاد پر گروہی اور ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کے ”مرض ”میں مبتلا ہیں اور مفادات کی اس جنگ زرگری میں ان کا ہدف کیا ہوتا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ بقول جگر مراد آبادی
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
ادھر ایک اور خبر نے ہمیں چونکا دیا ہے اور خبر ہے سٹی ٹریفک پولیس کی جانب سے شہریوں کے لئے ٹریفک قوانین سے آگاہی مہم کا آغاز ‘ اس ضمن میں خاص طور پر خطرناک طریقے سے ڈرائیونگ کرنے والوں ‘ ون وے کے غلط استعمال اوور سپیڈ ‘ سیٹ بیلٹ اور ہیلمٹ کے بارے میں عوام کی آگاہی کے لئے ضروری اقدامات اٹھائے جانے کی اطلاعات ہیں ‘ ٹریفک کامسئلہ صرف ہمارے ہاں ہی گھمبیر صورت اختیارکرتا سامنے نہیں آتا بلکہ دیگر بہت سے ممالک بھی اس حوالے سے ہم سے کسی طور پیچھے نہیں ہیں ‘ اور اس حوالے سے لاتعداد لطیفے بھی مشہور ہیں ‘ ان میں سے ایک تو بہت ہی پرانا یعنی ہمارے لڑکپن کے زمانے کا ہے کہ ایک سردار جی موٹرسائیکل پر رات کے وقت جارہے تھے کہ سامنے سے آنے والی سواری کے ساتھ ٹکر کھانے کی وجہ سے زخمی ہو کر ہسپتال جا پہنچے ‘ ٹانگ میں فریکچر بھی ہوگیا تھا اور بھی جسم پر مختلف جگہ زخم آنے کی وجہ سے ٹانکے لگے ایک دوست نے حال احوال پوچھتے ہوئے کہا ‘ کیا تمہیں سامنے سے آنے والی موٹر کار کے ہیڈ لائٹس نظر نہیں آئی تھیں جو سیدھے کار سے جا کر ٹکرائے ؟ سردار جی نے کہا ‘ یار میں یہ سمجھا تھا کہ سامنے سے بھی دو موٹر سائیکلوں والے اپنے اپنے سائیلنسر بند کرکے آرہے ہیں میں انہیں سرپرائز دینے کے لئے ان کے درمیان سے گزرنا چاہتا تھا اب مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ دو موٹر سائیکلیں نہیں بلکہ موٹر کار تھی جس سے جا کر میں ٹکراگیا تھا ‘ اسی طرح ایک خاتون جس نے تازہ تازہ ڈرائیونگ سیکھی تھی ‘ اس نے اپنے شوہر کو مجبور کیا کہ وہ اسے گاڑی کی چابی دے تاکہ وہ چکر لگا کر آئے بے چارے شوہر نے مجبور ہو کر اسے چابی دیدی اور ساتھ میں تاکید کی گئی کہ ہائی وے پر کوئی شخص غلط سائیڈ سے گاڑی چلا رہا ہے شوہر نے اپنی بیوی کو ٹریفک پولیس کی وارننگ سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ابھی الرٹ جاری ہوئی ہے کہ کوئی بے وقوف ڈرائیور غلط سمت سے گاڑی چلا رہا ہے تم احتیاط سے گاڑی چلائو ‘ بیوی نے جواب دیا ‘ ہاں بات درست ہے مگر غلط سمت سے آنے والا ایک بندہ نہیں بلکہ تمام ٹریفک الٹی سائیڈ سے آرہی ہے اس لئے ٹریفک حکام سے گزارش ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر سمجھاتے ہوئے خود بھی ”ہوشیار” رہیں ایسے نہ ہو کہ معاملہ اس شعر کی مانند ہو جائے بقول کلیم عاجز
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کروہو کہ کرامات کروہو

مزید پڑھیں:  ہسپتال یا قصاب خانہ؟