امن اور بد امنی کے درمیان ۔۔۔۔؟

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو درپیش چیلنجز اور دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے مدد فراہم کرنے، مشاورت کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کرنے اور افغانستان کیساتھ دہشتگردی کا مسئلہ اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حوالے سے سیاسی اور عسکری قیادت اور تمام سٹیک ہولڈرزایک صفحے پر ہیں ،ادھر ضلع کرم میں گزشتہ چند ماہ سے ہونیوالی بدامنی اور علاقے کے متحارب دھڑوں کے درمیان آٹھ ماہ کیلئے جنگ بندی کا معاہدہ روبہ عمل آ جانے سے صورتحال میں کشیدگی کا خاتمہ خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے اور عید کے موقع پر جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچ جانے، امن تیگہ رکھے جانے ،مرکزی شاہراہ کھولنے سمیت قیام امن کیلئے لائحہ عمل تیار کرنے کا کام شروع کئے جانے کے اقدام کو عید کے موقع پر خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب مردان کے علاقہ کارٹلنگ میں مصدقہ اطلاعات پر سیکورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی کے نتیجے میں اہم دہشتگرد سمیت امن دشمنوں کو ٹھکانے لگانے پر اظہار اطمینان کیا جا رہا ہے جبکہ اطلاعات کے مطابق محولہ دہشتگردوں نے عید کے موقع پر دہشتگردی کا منصوبہ بنایا تھا اگرچہ اس کارروائی کے نتیجے میں بعض بے گناہ خواتین اور بچے بھی ہلاک اور زخمی ہو گئے جس پر خیبر پختونخوا حکومت نے اظہار افسوس کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے، ادھر گزشتہ روز بی این پی ( مینگل) کے ایک دھرنے کے قریب خودکش دھماکے کی اطلاعات بھی یقینا تشویش کا باعث ہیں جبکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی دہشتگردوں کی جانب سے سکیورٹی فورسز کیخلاف حملوں کو پسپا کئے جانے اور امن دشمنوں کو ٹھکانے لگانے کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی شہادت کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، ایسے واقعات سے نمٹنے کیلئے وفاقی وزیر داخلہ کے تازہ بیان سے صورتحال کی سنگینی کا بھی احساس ہوتا ہے اور حکومت کے عزم کے اظہار پر بھی روشنی پڑتی ہے، وزیر داخلہ نے دہشتگرد دی کے ان واقعات کے حوالے سے تمام صورتحال پر افغانستان کیساتھ رابطہ قائم کرنے کی جو بات کی ہے اس کی اہمیت سے انکار کسی بھی طور ممکن نہیں، پاکستان میں ہونیوالی دہشتگردی میں ملوث عناصر کے بارے میں اب یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی بلکہ اس حوالے سے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں کہ اس دہشتگردی کی جڑیں افغان سرزمین کیساتھ جڑی ہوئی ہیں جہاں محولہ دہشتگردوں کی نہ صرف تربیت کی جاتی ہے اور اس میں بھارت کی خفیہ ایجنسی بھی ملوث ہے جو نہ صرف ان دہشتگردوں کو ہر قسم کی سہولت مہیا کر رہی ہے یعنی تربیت سے لیکر جدید اسلحے اور فنڈز کی فراہمی بلکہ لاجسٹک سپورٹ بھی مہیا کر کے پاکستان کے اندر دہشتگردانہ حملوں پر اکسا کر بے گناہ عوام پر بدامنی مسلط کرنے میں ان وطن دشمنوں کی حوصلہ افزائی میں بھی یہی قوتیں ملوث ہیں اور ان تمام کارروائیوں میں افغانستان کی حکومت کے کچھ کردار بھی ملوث ہیں، اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی نے جو امور خارجہ کے ماہر اور سابق سفیر ہیں امریکی تھنک ٹینک کار نیگی انڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانے پاکستان کو غیر محفوظ بنا رہے ہیں، امریکہ پاکستان کو کسی بھی غیر ملکی یا علاقائی عدسے سے دیکھنے کی بجائے آزادانہ طور پر دیکھے، ادھر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے بھی پاکستان میں دہشتگردی کے حوالے سے ہونیوالے واقعات پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ افغان طالبان کے مسئلے سے اگاہ ہے، داعش، ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کو افغان طالبان کی سرپرستی حاصل ہے ،درایں حالات وفاقی وزیر داخلہ کا ملک میں دہشتگردی واقعات کے حوالے سے تمام معاملات افغان حکومت کیساتھ اٹھانے کے بیان کو معمولی نوعیت کا روایتی بیان سمجھنے کی بجائے اس کی سنجیدگی کو مدنظر رکھنا چاہیے اور پاکستان میں گزشتہ عرصے سے جو دہشتگردانہ واقعات ہو رہے ہیں ان کی تزویراتی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس حوالے سے اٹھائے جانیوالے واقعات پر سوچنا لازمی ہوگا، بدقسمتی سے افغان انتظامیہ پاکستان کے خدشات کو ہمیشہ نظر انداز کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتی دکھائی دے رہی ہے جبکہ مختلف ذرائع سے سامنے آنیوالی اطلاعات کے مطابق پاکستان کے پاس افغانستان کی سرزمین کے پاکستان کیخلاف استعمال کئے جانے اور وہاں سے دہشتگردوں کو ہر قسم کی سپورٹ کی فراہمی کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں اور صبر سے کام لینے اور دہشتگردوں کی ریشہ دوانیوں کو نظر انداز کرنے کی اگر ماضی میں بوجوہ کچھ پالیسیاں رہی ہیں تو اب اس حوالے سے مزید برداشت نہ کرتے ہوئے ان تمام معاملات پر افغانستان کیساتھ کھل کر بات کرنے کا فیصلہ ناگزیر ہو چکا ہے اور اس میں مزید تاخیر پاکستان کی سلامتی کے تقاضوں کیخلاف ہے۔

مزید پڑھیں:  پشتونوں کے زوال کا سلسلہ کب رُکے گا