گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں دہشت گردانہ واقعات میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس نے ملک میں امن و امان کے معاملات پرکئی سوال اٹھا رکھے ہیں ‘ سیکورٹی فورسز کی بے پناہ قربانیوں کے نتیجے میں اگرچہ صورتحال بہت حد تک قابو میں ہے تاہم پھر بھی کچھ نہ کچھ واقعات ہوتے رہتے ہیں جن پر بعض حلقوں کی جانب سے اعتراض بھی سامنے آرہے ہیں ‘ اس حوالے سے کاٹلنگ آپریشن خاص طور پر قابل ذکر ہے جس کی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے تحقیقات کااعلان بھی کردیا ہے صوبائی حکومت کی جانب سے واضح موقف کااعلان تحقیقات کے مکمل ہونے کے بعد ہی سامنے آسکتا ہے ‘ دوسری جانب جعفر ایکسپریس کے سانحے کے بعد بلوچستان میں حالات ایک اور منفی روخ اختیار کر چکے ہیں اور بی این پی مینگل کے رہنما سردار اختر مینگل کے مستونگ کے قریب احتجاجی دھرنے اور خواتین کی رہائی کے مطالبات کے ہنگام دھرنے کے قریب خود کش حملے سے صورتحال میں مزید کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اور بلوچستان حکومت نے اہم شاہراہوں پر رات کوپبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی عاید کردی ہے جبکہ سیکورٹی کے انتظامات بھی سخت اور وسیع کر دیئے ہیں تاہم دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے جس چیز کی سب سے زیادہ اہمیت اور ضرورت ہے وہ ہے قومی اتحاد ‘ جس کی طرف ایک سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ نون کے اہم رہنما خرم دستگیر نے بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے اتحاد ضروری ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت ملک میں اتحاد و اتفاق کی کیا صورتحال ہے ؟ کیونکہ موجودہ حالات کی نزاکت کو سمجھے بغیر اس حوالے سے سیاسی قائدین میں اتفاق دور دور تک نظر آنا تودرکنار ‘ حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس کی خبریں گردش کر رہی ہیں جو موجودہ حکومت کو کسی نہ کسی طور گرانے کی حکمت عملی پرغور و خوض کر رہی ہیں اگرچہ خاص طور پر تحریک انصاف حکومت گرانے کے سوال پر بہت ہی اتائولی ہو رہی ہے اور وہ ہر صورت جے یو آئی(ف) کے ساتھ اتحاد سے معاملات کو بزعم خود” منطقی انجام” تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش ضرور کر رہی ہے اور چاہتی ہے کہ اگر جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کسی صورت راضی ہو جائیں تو وہ حکومت کے خلاف احتجاج کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہو سکتی ہے مگر ماضی میں تحریک کے بانی سے لے کر چھوٹے بڑے رہنمائوں کا مولانا صاحب کی مبینہ کردار کشی اور انہیں مختلف توہین آمیز ا لقابات سے نوازنے کا جو وتیرہ رہا ہے اگر مولانا صاحب وسیع القلبی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اسے بھول بھی جائیں تب بھی انتخابات کے دوران جمعیت کے امیدواروں کی ”جیت” کو جس طریقے سے ہار میں تبدیل کرکے ان کے مینڈیٹ پر بقول جے یو آئی رہنمائوں کے مبینہ طورپر ڈاکہ ڈالا گیا اور ان کو اسمبلیوں سے باہر کرنے کی کوششیں کی گئیں ان کی وجہ سے جمعیت کے حلقے شدید تحفظات کاا ظہار کر رہے ہیں اور اس صورتحال کی بناء پر مولانا صاحب اور ان کے پارٹی رہنما کسی بھی طور گھاٹے کاسودا کرنے کے موڈ میں نظرنہیں آتے ‘ اسی طرح دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی خاص طور پر ایاین پی ‘ قومی وطن پارٹی اور دیگر کو بھی مینڈیٹ چوری ہونے کی شکایات لاحق ہیںاور وہ اس معاملے میں موجودہ حالات میں غیر جانبداری اختیارکرنے کو ترجیح دے رہے ہیں اس لئے نظر بہ ظاہر حکومت کو گرانے کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوتی نظر نہیں آتیں جبکہ ایک جماعت کے سوشل میڈیا بریگیڈ کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات پر حکومتی موقف کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کئی سوالوں کو جنم دینے کاباعث ہے بلکہ ان کی جانب سے کہیں دبی زبان سے اور کہیں کھل کر دہشت گردی کی ”حمایت” کا تاثر سامنے آتا ہے جس پر افسوس کا اظہار کیا جانا فطری امر ہے دہشت گردی کے معاملات کاکسی بھی حکومت سے زیادہ ریاست کے ساتھ تعلق ہوتا ہے حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں آج ایک جماعت توکل کوئی اور جماعت برسر اقتدار ہو سکتی ہے مگر دہشت گردوں کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے نہ نظریہ وہ ریاست کی جڑیں کمزور کرکے ملک دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں اورایسی صورت میں قومی یکجہتی اور باہم اتحاد و اتفاق سے ہی ان کا مقابلہ کیا جا سکتاہے اس لئے صورتحال کا تقاضا یہ ہے کہ تمام سیاسی قائدین کم از کم دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے باہمی اختلافات کوتج کر ایک متفقہ موقف اختیار کرکے ملکی سا لمیت کے خلاف شدت پسندوں اور ملک دشمنوں کے مذموم عزائم ناکام بنانے میں ایک مٹھی ہو کر آگے بڑھیں جہاں تک باہمی سیاسی اختلافات کا تعلق ہے ان کو کسی بھی موقع پر حل کرنے اور اقتدار کے کھیل کو انتخابی عمل کے ذریعے مستقبل میں بھی جاری رکھا جا سکتا ہے مگر سیاسی اختلافات کی وجہ سے حکومت سے زیادہ ریاست کے بیانئے کونقصان پہنچانا مثبت طرز عمل و طرز فکر نہیں ہوسکتا ۔
