سخت فیصلہ

عسکریت پسندی اور ملک میں لاقانونیت کے واقعات سے نمٹنے اور قانون کی حکمرانی کیلئے پاکستان کو ایک سخت ریاست بنانے کے حوالے سے اعلیٰ سطحی فیصلے کے بعد اس پر عمل درآمد کی کوششوں کے آغاز سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ اس فیصلے کا حشر قومی ایکشن پلان سے مختلف ہوگا حالانکہ نیشنل ایکشن پلان زیادہ وسیع البنیاد مشاورت کے بعد اعلان کیا گیا تھا جس میں من حیث المجموع مجموعی سیاسی عسکری اور قومی قیادت شامل تھی مگر اس کے نکات پر عمل در آمد کاہنوز انتظار ہے اگر نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق فیصلہ اور عمل درآمد یقینی بنائی جاتی تو آج صورتحال نہ صرف بہت مختلف ہوتی بلکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے حالات بھی مختلف ہوتے اگر یہ کہا جائے کہ صرف ان دو صوبوں میں صورتحال آج اس نہج پر نہ ہوتی بلکہ اس کیساتھ ساتھ ملک میں سیاسی انتشار عدم استحکام اور تقطیب کی بھی یہ کیفیت نہ ہوتی اور ملک امن و امان سے لیکر طرز حکمرانی سیاست سے لیکر ہر سطح پر ریاستی اصولوں پر بڑی حد تک گامزن ہو چکا ہوتا مگر بہرحال ایسا ممکن نہ ہو سکا اور آج ایک مرتبہ پھر ملک انتشار عدم استحکام اور سیاسی تقطیب کے دہانے پر کھڑا ہے اور قومی قیادت کو ایک مرتبہ پھر سر جوڑ کر بیٹھنا پڑا لیکن دیکھا جائے تو اس مرتبہ کا فیصلہ مکمل طور پر قومی سطح کا نہیں کیونکہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی مشاورت اور صلاح ہی اس میں شامل نہیں بلکہ ان کی جانب سے مخالفانہ آراء کا بڑی شدت سے اظہار کیا جا رہا ہے بہرحال اس ضمن میں دیر یا بدیر اجماع کے حصول کے بغیر معاملات شاید آگے نہ چل سکیں بہرحال اس صورتحال سے قطع نظر گزشتہ ادھورے اور عدم عمل درآمد کا شکار نیشنل ایکشن پلان کے مقابلے میں پاکستان کو سخت ریاست بنانے کے حوالے سے فیصلے کے حوالے سے اس مرتبہ خاصہ سنجیدہ طرز عمل نظر آتا ہے اور حکومت نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو ایک سخت ریاست کے طور پر پیش کرنے کے حوالے سے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے ہارڈ سٹیٹ بنانے کے حوالے سے وزیر داخلہ کے ماتحت پورے وفاقی اور صوبائی حکام پر مشتمل سطح کی کمیٹی کی تشکیل پورے پاکستان کیلئے فعال کر دی گئی ہے کمیٹی ان تمام معاملات کا جائزہ لیکر عملی اقدامات کی مجاز ہوگی جو ملک میں بدامنی اور دیگر خرابیوں کا باعث چلی ارہی ہے اس ضمن میں اقدامات کی حقیقت اس وقت ہی بہتر طور پر سامنے آئیگی جب عندیہ دیے گئے امور پر عملی اقدامات کے ذریعے روک تھام کی نوبت آئے کیونکہ بہت سارے ایسے عوامل ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں خود بالا دستوں کا مفاد وابستہ ہے اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آیا بالادستوں کی جانب سے دستبرداری عملی طور پر کب اور کیسے اختیار کی جاتی ہے اور کمیٹی ایسی کیا تجاویز پیش کرتی ہے اور اقدامات کا آغاز کیا جاتا ہے جس سے یہ نظر آئے کہ خواہ جس کے بھی مفادات وابستہ ہوں قومی سلامتی مفاد ہر حال میں مقدم ٹھہرے گا جہاں دیگر اقدامات ضروری ہیں وہاں پاکستان کو اپنے جمہوری اداروں بشمول عدلیہ پارلیمان اور سول سوسائٹی کو مضبوط کرنے پر بھی توجہ دینی ہوگی انسانی حقوق کے تحفظ اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہوگا پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی وضاحت کرنی ہوگی اور جوابدہ ہونا ہوگا اور اگر ان اداروں کے ارکان کی جانب سے ذاتی طور پر خلاف ورزی کی شکایت آئے تو ان کو کٹہرے میں لانا پڑے گا حکومت کو بلوچستان اور صوبے کے اور ملک کے دیگر حصوں میں احساس محرومی کے جذبات اور اس کی وجوہات کا بھی ٹھنڈے دل سے جائزہ لیکر ان کو مکالمہ اور بات چیت کے ذریعے دور کرنے کا راستہ اختیار کرنا ہوگا ان علاقوں میں معاشی ترقی اور سماجی بہبود کے پروگراموں میں سرمایہ کاری کیساتھ ساتھ احساس محرومی اور تشدد کی بنیادی وجوہات کا جائزہ لیکر ان وجوہات کو دور کرنے پر توجہ دینی ہوگی اس سے استحکام کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے زیادہ متوازن انداز اپنا کر قومی سلامتی کے خدشات کو دور کرنا ہی بہتر راستہ ہوگا پاکستان کی قومی سلامتی اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے مضبوط ہاتھ کا مطالبہ کرتی ہے عسکریت پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ملک میں جس یکجہتی کی ضرورت مسلمہ ہے اس کا احساس و ادراک اور عملی اقدامات سے ملک کو استحکام کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے ایسے بہت سارے امور میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی جس میں حکومت اور ریاست عوام کی عدالت میں کھڑے نہ ہوں اور حکومتی و ریاستی اقدامات عوام کی نظروں میں شکوک و شبہات سے پاک ہوں۔

مزید پڑھیں:  کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے