1947ء کے بٹوارے اور پاکستانی ریاست کے سکیورٹی سٹیٹ ہونے پر ہماری آج بھی وہی رائے ہے جو اس طالب علم کی نصف صدی قبل تھی ان سطور میں تواتر کے ساتھ اپنی فہم کی روشنی میں ان موضوعات پر عرض کرتا رہتا ہوں۔ چند دن قبل میری بھانجی نے چند سوالات بھیجے اور کہا ماموں ان کے جوابات ضرور دیجئے۔ بہت آسان تھا ان کے سوالات کے جوابات لکھتا اور بھجوادیتا پھر سوچا کیوں نہ اپنے پڑھنے والوں کو بھی سوالات و جوابات سے آگاہ کیا جائے۔ بھانجی کا پہلا سوال ہے، کیا آپ بر صغیر کی جغرافیائی طاقت کو تقسیم کرنے کے عمل کو سازش سمجھتے ہیں اگر ایسا ہے تو محمدعلی جناح آپ کے نزدیک کہاں کھڑے تھے؟ جواب عرض کرنے سے قبل یہ وضاحت ازبس ضروری ہے کہ ”اپنی بھانجی کے سوالات کو اخباری زبان دینا لازم ہے کیونکہ اخبارات اور اس میں لکھنے والوں کی اپنی حدود ہوتی ہیں”۔ برصغیر کے بٹوارے کو اول دن سے ایک سازش کا حصہ سمجھا اور اب بھی یہی رائے ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ تقسیم باہمی رضامندی سے ہوتی ہے بٹوارہ مسلط کیا جاتا ہے۔ جناح صاحب نے اپریل 1947ء میں امریکی صحافیوں اور رائٹر کو دیئے گئے انٹرویوز میں تقسیم کے بعد کے پاکستان کے متوقع علاقائی اور عالمی کردار کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا سمجھنے والوں کیلئے اس میں قیامت کی نشانیاں ہیں۔برصغیر کا بٹوارہ اسی طرح کا بٹوارہ ہے جیسا بلاد عرب اور افریقہ میں ہوا۔ بنیادی بات یہی ہے کہ جب بھی قبضہ گیری سامراجی طاقت کسی بھی وجہ سے اپنے مقبوضہ جات سے نکلتی ہے تو وہ تقسیم اور نفرت کے بیج بوکر رخصت ہوتی ہے تاکہ سابق مقبوضہ جات مستقبل میں اس کیلئے چیلنج نہ بن سکیں۔ برصغیر میں بھی یہی کچھ ہوا۔ گزشتہ 76 برسوں سے واہگہ کے دونوں اور جو تاریخِ تقسیم پڑھائی جارہی ہے وہ سازش کے سہولت کاروں کے تقدس کا بھرم قائم رکھنے کی ریاستی حکمت عملی کا حصہ ہے ان کا دوسرا سوال ہے، (2) کیا آپ متفق ہیں کہ علامہ اقبال کا خواب برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک یونٹ فراہم کرنا تھا الگ ملک نہیں؟ مذاہب کے زیراثر سماجوں میں ہمیشہ خواب ہی فروخت ہوتے ہیں۔ یہی من چلے کا سودا ہے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال نے کسی شب پاکستان کا خواب دیکھا یہ سفید جھوٹ ان لوگوں کا گھڑا ہوا ہے جن کے خیال میں اقبال نے خواب دیکھا۔ سید مودودی نے اس میں رنگ بھرا اور جناح صاحب نے تعبیر دی۔ برصغیر کے داخلی انتظام میں مسلم یونٹس والی بات ہی درست ہے ہم اس کی تائید میں قرارداد لاہور (جسے خوش فہم حضرات قرارداد پاکستان قرار دیتے ہیں) کے متن کو بغور دیکھ سکتے ہیں اس میں بھی یونٹس کی بات کی گئی ہے تیسرا سوال، (3) آپ کی سیاسی نسبت ذوالفقار علی بھٹو سے ہے مگر کیا آپ ان کے سوا بھی پاکستان کے کسی ایک مخلص اور حقیقی لیڈر کے طور پر کسی کا نام لے سکتے ہیں؟ بھٹو سے محبت اوران کا احترام نسبت ہرگز نہیں نسبت تب ہو اگر میں انہیں داتا گنج بخش ثانی یا پیشوا سمجھوں وہ اپنے عہد کے ایک بالغ نظر سیاستدان تھے۔ گوشت پوست کے انسان خوبیوں اور خامیوں سے گندھے ہوئے پاکستانی سیاست میں ہر شخص کو اپنا پسندیدہ سیاستدان رانجھا اور مخالف کیدو دیکھائی دیتا ہے اس کے باوجود حسین شہید سہروردی، خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، غوث بخش بزنجو، سید محمد قسور گردیزی، محمد خان جونیجو ان لوگوں میں سے ہیں جن کے ہاتھ و دامن صاف رہے ہم ان سے نظریاتی اختلافات رکھ سکتے ہیں لیکن ان کے شخصی اخلاص اور دیانت پر انگلی نہیں اٹھاسکتے۔ میری دانست میں محترمہ بینظیر بھٹو کا سفاکانہ قتل ریاستی سازش تھی مقصد پاکستان کو ملکی سطح کی قیادت سے محروم رکھنا تھا۔ یہاں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ بالائی سطور میں جن شخصیات کا ذکر کیا وہ سب شعوری طور پر سکیورٹی سٹیٹ کی پابند طبقاتی جمہوریت کے کوچے سے عوامی جمہوریت کیلئے راستہ نکالنے کی جدوجہد کرتے رہے اس لئے قابل احترام ہیں۔ (4) پاکستان کا جغرافیائی المیہ سقوط ڈھاکہ ہے آپ کی اس بارے کیا رائے ہے؟ بنگالی مسلمانوں کا پابند طبقاتی جمہوریت میں دھنسے پاکستان سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بنالینا غیرفطری بٹوراے اور غیرمنطقی جغرافیہ کا انجام ہے۔ انجام سقوط نہیں ہوتا۔ ریاست میں ایک محدود طبقہ اگر قبضہ گیر سامراجی قوت سا رویہ اپنالے تو عوامی ردعمل فطری امر ہے۔ (5) تقسیم کشمیر اور اس حوالے سے چلائی گئی تحریک کے عمومی نتائج کے ساتھ کشمیر میں ہوئے جہاد بارے کیا کہتے ہیں؟ طالب علم کی رائے میں کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کا بنیادی حق ہے ہمارے ہاں تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی استصواب رائے والی قرارداد کے حوالے سے ہی دروغ گوئی کی جاتی ہے۔ کشمیر میں ہوئے جہاد نے قومی آزادی کے سوال پر مذہب کی چھاپ لگادی یہ جرم پاکستانی ریاست کا ہے جو بدلے کی سوچ کی اسیر تھی اور ہے۔ قومی آزادی کی جنگ محکوم قومیں خود لڑتی ہیں کرائے کے سپاہیوں اور جہادیوں کی اس جنگ میں شرکت سے قومی آزادی کا بنیادی مقدمہ کمزور ہوتا ہے جو کہ ہوا بھی۔ (6) کیا تقسیم کشمیر نے کشمیریوں سے ان کی شناخت چھین لینے کی عالمی سازش کو آگے نہیں بڑھایا؟ کشمیر کی غیرفطری تقسیم مجھ طالب علم کی رائے میں کسی عالمی سازش کا حصہ ہرگز نہیں بلک یہ پاکستان اور ہندوستان کے چند بڑبولے اور تاریخ سے ناواقف لیڈروں کا کارنامہ ہے۔ بہتر انداز میں سمجھنے کیلئے ہمیں بھارتی کانگریس کے رہنما اور بٹوارے کے بعد کے ہندوستان کے مرکزی وزیر پٹیل کی اس بات کو سامنے رکھنا ہوگا، پٹیل کہتے ہیں ”میں نے لیاقت علی خان سے کہا کشمیر پر دوملکی مفاہمت کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان ریاست جونا گڑھ اور ریاست حیدر آباد دکن پر اپنے غیرمنطقی اور جذباتی مؤقف سے پیچھے ہٹے۔ پٹیل کے بقول جواباً لیاقت علی خان نے کہا میں کیسے چند پہاڑیوں کیلئے دکن اور جونا گڑھ جیسی مالدار ریاستوں پر پاکستان کے مؤقف سے پیچھے ہٹ جائوں۔ (مزید استفادہ ان کی سوانح عمری سے کیا جاسکتا ہے) (7) عوامی ایکشن کمیٹی (غالباً جوائنٹ ایکشن کمیٹی) کشمیریوں کی حقیقی تحریک کا عندیہ ہے؟ عوامی ایکشن کمیٹی درحقیقت ریاست جموں کشمیر کے پاکستان کے زیرانتظام حصے آزاد کشمیر میں موجود سیاسی جماعتوں کی اقتدار پرستی کی اندھی دوڑ میں شرکت، سیاسی کج فہمی، اسٹیبلشمنٹ کی چوبداری اور عدم مساوات کیساتھ عوام کے مسائل سے چشم پوشی کا ردعمل ہے۔ یہ فیصلہ خود ایکشن کمیٹی ہی کرسکتی ہے کہ وہ سیاسی جدوجہد میں شریک ہوکر اپنے مستقبل کو خودمختار کشمیری ریاست سے منسلک کرتی ہے یا روایتی طور پر اس کھیل کا حصہ بنتی ہے جو سلامتی کونسل کی قرارداد کی چھتر چھایا میں کھیلا جارہا ہے۔ ہاں کشمیری قوم پرستوں کو جمہوری انداز میں رائے عامہ ہموار کرنے کیساتھ آزدا کشمیر کے دستیاب آئین میں موجود الحاق پاکستان والی اس شق کیخلاف مزاحمت کرنا ہوگی جو قوم پرستوں کو انتخابی عمل میں شرکت سے روکتی ہے۔ (8) آزاد کشمیر کے وزیراعظم نے گزشتہ دنوں جہاد کے نعرے بلند کئے ان کی ضرورت کیا تھی؟ میں پہلے ہی عرض کرچکا کہ قومی آزادی کی کسی بھی تحریک میں مذہبی اصلاحات کا استعمال درست نہیں پھر بھی سالے بہنوئی کی سرکار کا جہاد خاندانی مفادات کے تحفظ کا جہاد ہی ہوسکتا ہے۔ (9) کیا آپ عمران خان کو لیڈر سمجھتے ہیں؟ میرے سمجھنے نہ سمجھنے سے کیا ہوگا ایک بڑی تعداد ان کی حامی ہے البتہ لیڈرانہ اوصاف سے محروم شخص جو نفرت، نفرت اور نفرت پر ہی کھڑا ہو نفرت اوڑھے بیچے اس کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے۔ ماسوائے اس کے کہ اس کی شکل میں ریاست نے جو ذاتی دیوتا تخلیق کیا اور پارٹی بنائی وہ ریاست کے گلے پڑگئے ہیں۔ ریاست اور عمران کی لڑائی میں مجھ طالب علم کیلئے کسی کی حمایت ازبس مشکل ہے کیونکہ دونوں مذہبی اصلاحات سے رزق پاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو اسلا کا قلعہ کہتی ہے عمران اسے ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں جہاں خلیفہء وقت طبی موت سے ہمکنار نہیں ہوئے۔ (10) پاکستان کے اصل مسائل کیا ہیں ان کا حل کیسے ممکن ہوگا؟ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس کا جمہوری ریاست ہونے کی بجائے مذہبی تعصب میں گندھی سکیورٹی سٹیٹ ہونا ہے ایک جمہوری لبرل ترقی پسند پاکستان میں مسائل پر بات ہوسکتی ہے فی الوقت سکیورٹی سٹیٹ کی حاکمیت اعلیٰ سے نجات ہی اصل اور بڑا مسئلہ ہے۔ (11) کیا کشمیری عوام اپنے مادر وطن کو کبھی آزاد دیکھ پائیں گے؟ ہماری دانست میں اگلی نسلوں کا مستقبل ترتیب دینا آج کی نسل کا کام ہے۔ اٹوٹ انگ اور الحاق کے کھلواڑوں سے نجات کی صورت میں خودمختار قومی ریاست معرض وجود میں آسکتی ہے۔ (12) آپ کے نزدیک شہید محمد مقبول بٹ اور ان کی تحریک کشمیریوں کیلئے مشعل راہ تھی یا گمراہی؟ محمد مقبول بٹ شہید کشمیریوں کی آزاد قومی ریاست کے علمبردار تھے اسی جدوجہد میں قربان ہوئے ان کی فکر اور جدوجہد کو گمراہی قرار دینے والے اسٹیبلشمنٹی طبلچی اس سازش کا حصہ تھے جس سے ایک خالص قومی آزادی کی تحریک کو ہندو مسلم مسئلہ بناکر متنازعہ بنایا گیا اس سے جہاد فروشوں کی تو روٹیاں لگ گئیں لیکن کشمیری عوام کے حصے میں کچھ نہیں آیا ہاں ان کی محرومیوں میں اضافہ ضرور ہوا۔
