ذوالفقار علی بھٹو ایک سیاسی حقیقت

بھٹو صاحب(ذوالفقار علی بھٹو)اپنی مثال آپ تھے۔4 اپریل1979کی صبح اس شان سے دار پر جھولے کہ تاریخ میں امر ہوگئے۔ وہ کہتے تھے ”میں جرنیلوں کے ہاتھوں مر کر تاریخ میں زندہ رہنا زیادہ با وقار سمجھتا ہوں مفاہمت کرکے جینے سے”۔ سیاسی عمل میں وہ سکندر مرزا کے دور میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھیجے گئے وفد کی رکنیت سے داخل ہوئے۔ پھر انہی کی کابینہ میں وزیر بنے۔ اکتوبر1958 میں جنرل ایوب خان نے اپنے مربی و محسن سکندر مرزا کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ بعد ازاں انہوں نے سول ملٹری اشتراک سے وفاقی کابینہ بنائی بھٹو اس میں شامل تھے۔ اگلے مرحلہ میں انہیں وزیر خارجہ بنایاگیا۔ بطور وزیر خارجہ انہوں نے عالمی شہرت حاصل کی۔ بھٹو صاحب ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری بھی رہے صدارتی انتخابات میں ایوب خان کے چیف پولنگ ایجنٹ بھی۔1965 کی جنگ کے بعد ہونے والے معاہدہ تاشقند پر اختلاف کرکے وزارت سے الگ ہوئے۔ ایوب خان کی حکومت نے دوسطری پریس ریلیز جاری کی مسٹر بھٹو کو رخصت پر بھیج دیاگیا ہے۔ انہوں نے کسی تاخیر کے بغیر تردیدی بیان جاری کیا کہ وہ رخصت پر نہیں گئے بلکہ وزارت سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ راولپنڈی سے بذریعہ ٹرین لاہور کے لئے روانہ ہوئے تو قومی اسمبلی میں ان کے دو ساتھی غلام مصطفی جتوئی اور غلام مصطفی کھر انہیں رخصت کرنے ریلوے سٹیشن پہنچے۔ عوامی رابطہ مہم کے بعد انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت قائم کی۔ قبل ازیں انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی اور کونسل مسلم لیگ سے سیاسی مذاکرات کئے جو متعدد وجوہات کی بنا پر کامیاب نہ ہو پائے۔لاہور میں ڈاکٹر مبشر
حسن کی قیام گاہ پر پاکستان پیپلز پارٹی کا تاسیسی اجلاس ہوا پھر ہالا میں مخدوم طالب المولی کی قیام گاہ پر پہلا کل پاکستان ورکر کنونشن۔ پیپلز پارٹی ترقی پسند افکار و منشور کے ساتھ میدان عمل میں اتری معراج محمد خان سے جے اے رحیم اور ڈاکٹر مبشر حسن سے مختار رانا تک ان کے شریک سفر بنے۔ جتوئی اور کھر بھی تھے تو محمد حنیف رامے اور پروفیسر این ڈی خان بھی۔ حیات محمد شیر پائو بھی تھے تو میر علی احمد تالپور بھی۔ ایوبی آمریت کے جبر سے تنگ زمین زادوں کو بھٹو کی صورت میں نجات دہندہ دکھائی دیا۔سر شاہنواز خان بھٹو کے صاحبزادے نے عوامی سیاست کا انداز اپنایا۔ ایوب خان عوامی تحریک کے دبائو پر اقتدار سے رخصت ہوئے تو اپنے ہی بنائے ہوئے دستور کے مطابق اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کے حوالے کرنے کی بجائے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کے سپرد کرگئے۔ جنرل یحییٰ خان نے لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا۔ ون یونٹ ختم ہوا مغربی پاکستان کے چاروں صوبے بحال کردئیے گئے ون مین ون ووٹ کے اصول پر انہوں نے انتخابات منعقد کروائے۔ ان انتخابات میں فوجی حکومت کی پسندیدہ جماعتوں اور رہنمائوں کو مالی مدد فراہم کی گئی۔ امدادی رقم کنونشن لیگ کے ضبط شدہ بنک اکائونٹس سے لی گئی۔ فیض پانے والوں میں جماعت اسلامی مسلم لیگ قیوم گروپ دوسری چند چھوٹی جماعتیں اور شخصیات شامل تھیں۔1970 کے انتخابات کے نتیجے میں عوامی لیگ مشرقی پاکستان سے 2 کے سوا قومی اسمبلی کی تمام نشستیں جیت گئی۔ مغربی پاکستان سے پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ جناب یحییٰ خان اپنی صدارت کی ضمانت چاہتے تھے بنگالی اس کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ بھٹو کے مخالف ان پر سقوط مشرقی پاکستان میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہیں سندکے طور پر ان کے پاس ایک اخباری سرخی ہے ۔ اس سرخی کے الفاظ مینار پاکستان میں منعقدہ جلسہ سے بھٹو کے خطاب میں سے لئے گئے مگر اسی طرح جیسے مت جائو نماز کی طرف سیاق و سباق کے بغیر جمائی گئی اس سرخی کی جگالی آج بھی زیادہ تر وہ کرتے ہیں جنہوں نے مسلح تنظیمیں بنا کر بنگالیوں کی نسل کشی کی۔16 دسمبر1971 کے سقوط مشرقی پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں فوجی بغاوت کا خطرہ بھانپ کر جرنیلوں نے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کیا۔ انہوں نے بھارت سے مذاکرات کئے شملہ معاہدہ ہوا90 ہزار جنگی قیدی رہا ہو کر وطن واپس آگئے زرعی اصلاحات ہوئیں۔مالیاتی ادارے صنعتیں اور تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لئے گئے۔ بہتر خارجہ پالیسی کی وجہ سے مجموعی طور پر گیارہ سے تیرہ لاکھ پاکستانیوں کو بیرون ملک ملازمتیں ملیں زر مبادلہ آنے لگا مقامی مارکیٹ میں پیسے کی ریل پیل ہوئی پیٹ بھرنے لگا تو یہ احساس دو چند ہوا کہ بھٹو اسلام کا دشمن ہے۔ حالانکہ بھٹو صاحب کے دور میں بنائے گئے1973 کے
دستورنے پاکستان کو خالص مذہبی ریاست کاچہرہ عطا کردیا تھا۔1956کی طرح1973 کے دستور میں بھی قرار داد مقاصد دستور کا بیانیہ ٹھہری۔ بھٹو نے اپنے عہد میں بہت سارے کام کئے تو ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔ خوبیوں کا پلڑا بہر طور بھاری ہے۔ انہوں نے اردن کے شاہ حسین کی سفارش پر آٹھویں درجہ کے جرنیل جنرل ضیا الحق کو آرمی چیف بنایا بعد کے حالات، بھٹو مخالف تحریک میں ڈالروں کی جھنکار اور پھر بھٹو کی پھانسی ان سب کا تجزیہ ہمیں سمجھاتا ہے کہ شاہ حسین کی سفارش کے پیچھے امریکہ تھا۔ آٹھویں درجہ سے اوپر لائے گئے مسکین اور وفادار جنرل نے5 جولائی1977 کو ان کی حکومت کاتختہ الٹ دیا۔ اسلامی نظام نافذ کروانے کے نعرے مارتا قومی اتحاد اسلام آباد کی فوجی حکومت میں شامل ہوگیا۔ بھٹو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں پھانسی چڑھا دئیے گئے۔ اس مقدمہ کا فیصلہ اتنا انصاف پر مبنی ہے کہ دنیا کی کوئی عدالت اسے نظیر کے طور پر سننے کو ہی تیار نہیں ہوتی۔قانونی و عدالتی حلقوں نے بھٹو کی پھانسی کو جوڈیشل مرڈر قرار دیا۔4 اپریل1979ء کی صبح پھانسی چڑھنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے تین نسلوں کو متاثر کیا وہ آج بھی سیاسی شعورکی زندگی سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں آج بھی ان کے نام سیاسی فہم اور جدوجہد کی اہمیت ہے۔ فقط یہی نہیں بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ لوگوں کی خواہش کے برعکس بھٹو آج بھی زندہ ہے اسی لئے ان کے مقدمے کے حوالے سے دائر صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اب انہیں ریاست کا سب سے بڑا اعزاز دیاجانا اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں:  پولیو مہم کی ناکامی