ایک جانب جہاں افغان مہاجرین کی وطن واپسی کی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے اور بعض علاقوں میں مقیم افراد کو 24 گھنٹے کی مہلت دی گئی اور دستاویزات نہ رکھنے والے افغان باشندوں کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی ہے وہاں دوسری جانب یہ اطلاعات پریشان کن ہیں کہ پاکستان سے افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کے بعد سرحدی علاقوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق کچھ خاندان غیر قانونی طور پر سرحدی راستوں سے دوبارہ واپس آرہے ہیں اگر صورتحال یہی رہی تو حکومت کی ساری کوششیں پھٹی ہوئی بوری میں ریت بھرنے کے مترادف قرار پائیں گی جہاں ایک جانب اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے کہ افغان باشندوں کو واپس بھجوانے میں اب کوئی دقیقہ فر و گزارشت نہ کیا جائے وہاں دوسری جانب ان کی ممکنہ طور پر واپسی کے تمام راستوں کو مسدود کرنے کیلئے خصوصی اقدامات پر توجہ کی ضرورت ہے ایسا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان راستوں کا استعمال ممکنہ طور پر دہشتگرد بھی کرسکتے ہیںاس کیساتھ ساتھ جعلی شناختی کارڈ رکھنے والے افغان باشندوں کیخلاف کارروائی میں تیزی لانے کی ضرورت ہے یہ تاثر درست نہیں کہ نادرا حکام کی جانب سے ان کیخلاف کارروائی میں کوئی لیت ولعل ہو رہی ہے حقیقت یہ ہے کہ نادرا میں اس حوالے سے باقاعدہ ایک شعبہ مسلسل کام کر رہا ہے اور اخبارات میں شائع ہونیوالی طویل فہرست انہی کی مرتب کردہ ہے البتہ یہ بات ضرور ہے کہ با اثر افغان باشندوں کی جانب سے غیر قانونی طور پر پاکستانی شناختی دستاویزات کا جو حصول ہوا ہے ان کیخلاف خصوصی طور پر کارروائی ہونی چاہئے اس حوالے سے نادرا حکام اگر معمول کے اس عمل کیساتھ کوئی خصوصی اعلیٰ سطحی و اختیاراتی ٹیم تشکیل دیں تو زیادہ مؤثر کارروائی ممکن ہو سکے گی۔
