خیبر پختونخوا میں خود ایک دوسرے پر انگشت نمائی اور الزاماتکی بھر مار کے عالم میں یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ آیا یہ محض سیاسی بنیادوںپر مخالفین پر لگائے جانے والے الزامات ہیں یا پھر واقعی بدعنوانی کا جادو سر چڑھ کر بولنے کے الزامات میں صداقت ہے امر واقع یہ ہے کہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت کے وزیر خزانہ پر خود تحریک انصاف کی کمیٹی کی جانب سے بدعنوانی کے الزامات کی لمبی فہرست کے اجرا کے بعد اسپیکر خیبر پختون خوا اسمبلی کے خلاف خود تحریک انصاف ہی کی صفوں سے بدعنوانی کے الزامات میں کس حد تک صداقت ہے اور تحقیقات کے بعد کاوروائی کیا ہوتی ہے اس سے قطع نظر بہر حال یہ تاثر ضرور قائم ہو ہوا ہے بلکہ راسخ ہونے کے قریب ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں میرٹ اور شفافیت کے دعوے حقائق پر مبنی نہیں تھے جس سے قطع نظر البتہ ایک مثبت امر یہ ضرور ہے کہ تحریک انصاف کے سابق و موجودہ دور میں الزامات پر کارروائی ضرور ہوئی ہے اس وقت بھی کابینہ میں شامل بعض وزراء پر انگشت نمائی ہو رہی ہے اور ممکن ہے ان کو کابینہ سے فارغ کرنے سے ان افواہوں کی تصدیق ہو بہرحال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان الزامات کے پس پردہ واقعی بدعنوانی کی داستانیں ہیں یا پھر سیاسی بنیادوں پر اس طرح کے الزامات لگ رہے ہیں کیونکہ ماضی میں بھی ایسا بھی ہوا ہے کہ کرپشن کی ہوشرباء داستان سنائی گئی مگر نہ تو الزامات ثابت کیے گئے اور نہ ہی ان عناصر کے خلاف کارروائی ہوئی اور الزامات کا بالاخر نتیجہ محض عہدے سے ہٹانا اور سیاسی ساکھ خراب کرنے کا مقصد کے طور پر سامنے آیا صوبائی اسمبلی کے معاملات کتنے شفاف ہیں اور سپیکر پر الزامات کی حقیقت کیا ہے نہ صرف اس کی چھان بین ہونی چاہیے بلکہ صوبائی اسمبلی کے جملہ معاملات کی من حیث المجموع چھان بین کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ اس حوالے سے چہ میگوئیوں میں تیزی دکھائی دیتی ہے ممکن ہے یہ حقیقت سے قریب ہوں بہرحال جب تک بلی تھیلے سے باہر نہیں آتی اس حوالے سے مزید کچھ کہنا مناسب نہیں سوائے اس کے کہ ان الزامات کو اچھالنے کی بجائے ان کی جامع تحقیقات کر کے اصل صورتحال عوام کے سامنے لائی جائے اور الزامات ثابت ہونے کے بعد ہی جو بھی کارروائی ہو وہی مناسب متصور ہوگا۔
