ہم نہ کوئی فلسفی ہیں جن کے ارشادات کو لوگ بطور سند تقریروں اور تحریروں میں استعمال کرتے ہیں ‘ نہ دانشور ہونے کے دعویدار ہیں کہ شاید”دانش” سے بھی ہمارا تعلق بس ” اس گلی میں سے گزرتے ہوئے ”چھونے تک ہی رہتا ہے اور ہم تو خود مشہور زمانہ مفکروں ‘ مصنفوں اور اہل دانش کے خیالات سے کسب فیض کرتے رہتے ہیں ‘مگر خدا جانے ایک موقع پر کس ترنگ میں آکر ہمارے ”قلم کی نوک پر یہ الفاظ آگئے تھے جسے اگر کسی مشہور دانشور اور فکر کے نام سے ہم بطور حوالہ پیش کر دیتے تو بہت سے لوگوں کے لبوں پر بے ساختہ ”واہ” کے الفاظ آکر ٹھہر جاتے خیر بقول شخصے من آنم کہ من دانم کے مصداق اپنی کم مائیگی کا احساس ہونے کے باوجود وہ الفاظ آپ کے ساتھ شیئر کرنے کی ہمت کرتے ہوئے بتا دیتے ہیں کہ ہم نے کیا کہا تھا ‘ تو وہ الفاظ کچھ یوں تھے کہ ”ادب شعور کو نکھارنے اور سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے ” ممکن ہے کوئی صاحب ہمارے کہے ہوئے ان الفاظ کے ڈانڈے واقعی کسی قدیم دور کے دانشور ‘ فلسطی کی تحریروں کے ساتھ ملاتے ہوئے ہم پر ”سرقہ” کا الزام بھی لگا دے ‘ تاہم ہماری فہم کے مطابق محولہ بالا الفاظ کسی مشہور زمانہ ”نابغہ روزگار” فلسفی ‘ دانا و بینا شخص کے نہیں ہیں بلکہ ہم ایسے کم فہم ‘ معمولی سے لکھاری سے قلم زد ہوئے ہیں حالانکہ اس ضمن میں ہم اپنی ” جہالت” سے پوری طرح واقف ہیں اور شعور و دانش کے ساتھ جو سلوک دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح روا رکھتے ہیں اس کی نشاندہی ڈاکٹر راحت اندوری مرحوم نے اپنے ایک شعر میں یوں کی ہے کہ
جہالتوں کے اندھیرے مٹا کے لوٹ آیا
میں آج ساری کتابیں جلا کے لوٹ آیا
اس شعر کی”یاد آوری” کا کارن وہ ایک خبر ہے جس کے مندرجات کو ہم ہمیشہ اپنی کمزوری سے تعبیر کرکے مختلف وقتوں میں گزشتہ برسوں کے دوران اکثر دکھی دل کے ساتھ تبصرہ کرتے ہوئے اس ”طبقے” کی توجہ دلاتے رہے ہیں جن سے کچھ اچھا کرنے کی توقعات ہوتی ہیںبلکہ اگر ہم اس ”موضوع” کو اس کمبل سے تشبیہ دیں جس سے جان چھڑانا ہمارے لئے ہمیشہ ناممکن رہا ہے تو شاید غلط نہ ہو کیونکہ یہ ”کمبل” ہماری کمزوری ہے حالانکہ ہم نے ہمیشہ یہ سوچ کر اس سے جان چھڑانے کی کوشش کی کہ بقول شاعر
کوفہ مزاج لوگوں کی بہتات ہے یہاں
اس شہر نامراد سے خیمے سمیٹ لو
اور شاعر نے جن لوگوں کو ”کوفہ مزاج” کہا ہے ان کی نشاندہی مرحوم پروفیسر طہٰ خان نے ان الفاظ میں کی ہے
دیکھ لینا آدمی میں بھی بڑا ہوجائوں گا
خود فروشی کے لئے چکنا گھڑا ہو جائوں گا
سچ کہوں تعلیم سے رغبت نہیں کوئی مجھے
فیل ہو کر میں الیکشن میں کھڑا ہو جائوں گا
طہٰ خان تو خیر اپنی طرز کے باکمال دانشور ‘ شاعر ‘ ماہر تعلیم و لسانیات تھے ‘ وہ کچھ بھی کہنے کی جرأت رکھتے تھے حالانکہ جن کی طرف سے انہوں نے اشارہ کیا ہے ایسی مخلوق قیام پاکستان کے بعد کے دور میں ہمارے ہاں پائی جاتی تھی جب ایک پرائمری پاس میاں جعفر شاہ مرحوم کو قیوم خان کابینہ میں وزیر تعلیم بنایا گیا تھا اسی طرح دو ڈھائی دہائیاں پہلے ایک اور صاحب(غالبا) یوسف ترند کو چٹا انپڑھ ہوتے ہوئے تعلیم کے شعبے کی وزارت سے نوازا گیا تھا ‘ (نام اگر کچھ اور ہو تو معذرت)اس لئے ایسی مخلوق کے ہوتے ہوئے تعلیم اور شعور کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں اور ظاہر ہے جو حشر علم و آگہی کے حوالے سے کتابوں سے کیا گیا اس کی حقیقت گزشتہ روز سامنے آنے والی ایک خبر کے ساتھ جڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے یعنی خبر کچھ یوں ہے کہ میونسپل لائبریری بند کرکے اسے مرکزی لائبریری میں ضم کرنے پر غور کیا جارہا ہے ویسے تو خیبر پختونخوا اور خاص طور پر پشاور میں لائبریریوں کے علاوہ کتابوںکی دکانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے اس پر ہم پہلے بھی متعدد بار لکھ چکے ہیں اورجس میونسپل لائبریری کی بات ہو رہی ہے اس کا جو حشر ہمارے ایک مرحوم دوست شین شوکت کی بطور لائبرین ریٹائرمنٹ کے بعد اس دور کے میونسپل کارپوریشن کے کارپردازوں نے کیا وہ سب ہمارے سامنے ہے ‘ شین شوکت مرحوم جب تک میونسپل کمیٹی اور اس کے بعد اس کا کارپوریشن کا درجہ دینے کے دوران اس عظیم الشان لائبریری کی دیکھ بھال کرتے رہے وہ ایک تاریخ ہے ‘ اگرچہ ان کی ملازمت کے دوران ہی میونسپل کمیٹی کی عمارت وہاں سے ختم کئے جانے اور پرانی عمارت میں سٹی گرلز کالج قائم کئے جانے کے بعد یہ بے چاری لائبریری خانہ بدوش ہو کر کبھی تحصیل گورگٹھٹری کے ایک سیلن زدہ جہاں بیسمنٹ میں ڈبلیو ایس ایس پی کے قیام سے بھی پہلے پانی کے بل جمع کرنے کے لئے متعلقہ عملہ ذمہ داریاں نبھاتا رہا ہے اب بھی پانی کے بل شاید ادھر ہی جمع ہوتے ہیں سو اس خانہ بدوشی کے دوران لاتعداد نادر و نایاب کتب ضائع ہوئیں ان میں قدیم اور تاریخی نوعیت کی کتب بھی شامل تھیں جبکہ تازہ ترین خبر نے ہمیں یوں چونکا دیا ہے کہ اب اس لائبریری میں دوہزار کے لگ بھگ کتابیں ہیں جو سفید جھوٹ کے مترادف ہے اس لئے کہ یہ لائبریری پشاور کی تاریخی لائبریریوں میں اہم مقام رکھتی ہے(یا تھی) جہاں ہزاروں کتابیں انگریزوں کے دور یعنی قیام پاکستان سے بھی پہلے اس کے قیام کے بعد موجود تھیں ہاں گزشتہ کچھ عرصے میں اگر نئی کتابیں نہیں خیرید ی گئیں تو بھی پرانی کتابوں کی تعداد آٹھ دس ہزار سے زیادہ ہونی چاہئے تو وہ کتابیں گئی کہاں؟ اس ضمن میں گزشتہ برسوں کے دوران وقتاً فوقتاً اس لائبریری کا نوحہ پڑھتے ہوئے ہم نے جتنے کالم بھی لکھے ان میں یہی گزارش کی تھی کہ یا تو اس کے لئے ایک کل وقتی کوالیفائیڈ لائبریرین کی خدمات حاصل کرکے اس کو محفوظ کیا جائے یا پھر یہ کتب اسلامیہ کالج ‘ پشاور کسی خواتین یونیورسٹی وغیرہ کودی جائیں تاکہ طالب علم ریسرچ کے دوران ان کتب سے استفادہ کرسکیں مگر لائبریری کی حفاظت تو درکنار اب تو اس میں کتابوں کی تعداد ہی اتنی کم ہو گئی ہے کہ حیرت ہوتی ہے ایسا لگتا ہے کہ اس ”لائبریری نا پرسان” کو کلرکوں اور نائب قاصدوںکے حوالے کرکے اس قیمتی خزانے کو ”لوٹنے” کی کھلم کھلا اجازت دی گئی ہے ظاہر ہے جب میٹرو پولیٹن کارپوریشن سے لے کر پارلیمنٹ کے ایوانوں تک کتابوں سے ”عشق” رکھنے والوں کے برعکس خصوصیات کے حامل افراد اکثریت میں ہوں گے تو بابا بلھے شاہ ہی یاد آئیں گے یعنی
جتنے ہون جہالتاں ‘ بکلے لگاون عدالتاں
کاں پئے کرن وکالتا ‘ سب نوں ملن رذالتاں
دل دا شیشہ صاف نئیں ہوندا ‘ اوتھے فیر انصاف نئیں ہوندا
بلکہ بابا اشفاق احمد بھی تو کہہ گئے ہیں کہ جہاں کتابیں فٹ پاتھوں پر اور جوتے شیشے کی الماریوں میں سجائی جائیں تو سمجھ لینا کہ اس قوم کو علم کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے ‘ یارطرحدار خالد خواجہ نے کیا خوب کہا ہے
فضول بحث کا دروازہ کھول دیتا ہوں
خموش رہ نہیں سکتا ہوں ‘ بول دیتا ہوں
